Live Updates

چیئرمین نیب کو ہٹانے کا پاکستانی صدر کا اختیار تنقید کی زد میں

DW ڈی ڈبلیو منگل 2 نومبر 2021 22:00

چیئرمین نیب کو ہٹانے کا پاکستانی صدر کا اختیار تنقید کی زد میں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 نومبر 2021ء) اس حکومتی اقدام کو کئی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے اور ناقدین کا خیال ہے کہ حکومت نے اس طرح کا آرڈیننس جاری کر کے ایک ذیلی عدالتی ادارے کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ کہ اس کے بعد نیب کو ممکنہ طور پر سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تیسرا نیب آرڈیننس

پاکستانی حکومت نے اس مہینے یہ تیسرا آرڈیننس جاری کیا ہے، جو نیب سے متعلق ہے۔

اس آرڈیننس کے اجرا کے حوالے سے وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اس کو جاری کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کیونکہ دوسرے آرڈیننس کے نکات کے حوالے سے کچھ حلقے ان کی غلط تشریح کر رہے تھے۔ قومی احتساب بیورو یا نیب کے حوالے سے حکومت نے جو دوسرا آرڈیننس جاری کیا تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ چیئرمین نیب کی تقرری چار سال کے لیے ہو گی اور اس دوران ان کو ان کے عہدے سے اسی طرح ہٹایا جا سکے گا جس طرح سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ہٹا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن اس تیسرے آرڈیننس میں نیب کے سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا اختیار صدر مملکت کو دے دیا گیا ہے۔ تیسرے آرڈیننس میں بھی دوسرے آرڈیننس کی طرح اس تقرری کی شرائط کا تعین ملکی صدر ہی کرے گا۔

پاکستان: سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف بدعنوانی کیس میں گرفتار

’عدلیہ کی آزادی پر حملہ‘

پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کے مطابق حکومت کا یہ نیا اقدام عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس آرڈیننس کے اجراء سے پہلے چیئرمین نیب کو بھی اسی طرح اس کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا تھا، جس طرح سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ یعنی سپریم جوڈیشل کونسل میں اس کے خلاف شکایت جاتی تھی اور کونسل الزامات کا بغور جائزہ لیتی تھی اور پھر تمام تر قانونی مراحل سے گزرنے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل اس کے بارے میں فیصلہ کرتی تھی۔

‘‘

نیب دفتر کے باہر پتھراؤ اور ہنگامہ آرائی، مریم نواز کی پیشی منسوخ

لطیف آفریدی کے بقول اب حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل سے اختیار چھین لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نیب کا سربراہ 'صدر عارف علوی کے ماتحت‘ ہو گا۔ ''اور سب کو پتہ ہے کہ صدر عارف علوی عمران خان کے ماتحت ہیں۔ لہٰذا اب نیب کو پی ٹی آئی ہی چلائی گئی، جس کا مطلب ہے کہ اسے سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا، جو انتہائی افسوس ناک بات ہے۔

‘‘

حکومتی اختیار

لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ قانونی طور پر حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آرڈیننس جاری کرے، ''آرڈیننس ایک سو بیس دن کے لیے ہوتا ہے اور اگر اس دوران صدر مملکت چیئرمین نیب کو ہٹاتے ہیں، تو ایسا اقدام قانونی تصور کیا جائے گا۔ اگر پارلیمنٹ اس آرڈیننس کی منظوری نہ بھی دے، پھر بھی برطرفی کا عمل قانونی ہی تصور کیا جائے گا۔

‘‘

'انتظامیہ کو مضبوط کرنے کی کوشش‘

پاکستانی سپریم کورٹ کے سابق جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت ایک ایسے ادارے کو، جو ذیلی عدالتی ادارہ ہے، انتظامیہ کی ماتحتی میں لا رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نیب آرڈیننس میں چیئرمین نیب کو ہٹانے کے حوالے سے تھوڑا سا ابہام ہے۔

پرانے قانون میں تو اسے اسی طرح ہٹایا جا سکتا تھا جیسے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے۔ اب صدر مملکت کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے۔ لیکن اس آرڈیننس میں بھی یہ بات واضح نہیں کہ آیا صدر کے پاس یہ اختیار صوابدیدی ہو گا یا صدر وزیر اعظم کے مشورے کا پابند ہو گا۔‘‘

گرفتاری کے لیے نیب کے چھاپے، شہباز شریف روپوش

جسٹس وجیہہ الدین کے بقول اگر صدر وزیر اعظم کے مشورے کا پابند ہو گا، تو اس سے تو بالکل یہ بات واضح ہے کہ حکومت نیب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

نیب آرڈیننس چیلنج ہو سکتے ہیں

معروف قانون دان بیرسٹر اکرم شیخ کا کہنا ہے کہ نیب کے حوالے سے جتنے بھی آرڈیننس حالیہ ہفتوں میں جاری ہوئے ہیں، وہ سب کے سب تضادات سے بھرے ہوئے ہیں اور وہ عدالتوں میں چیلنج ہو سکتے ہیں۔

سابق پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی گرفتار

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''آئین کہتا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے لیکن کم نہیں کر سکتی۔

لیکن اس آرڈیننس نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات کو کم کر دیا ہے اور نیب کی غیر جانبداری اور آزادی کا تصور اس آرڈیننس کے بعد بالکل ختم ہو گیا ہے۔ اب نیب کا چیئرمین حکومت کے ماتحت ہو گا اور حکومت جب چاہے گی، اسے ہٹا دی گئی۔‘‘

چیئرمین نیب اور تنازعات

ناقدین کے خیال میں چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال پاکستان کے طاقت ور حلقوں کے قریب ہیں۔

اسی لیے ایبٹ آباد کمیشن کا چیئرمین انہیں بنایا گیا لیکن اس کمیشن کی رپورٹ آج تک عام نہیں کی گئی۔ جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کے حوالے سے بننے والے کمیشن کی سربراہی بھی انہی کے حوالے کی گئی تھی اور اس کمیشن کی کارکردگی پر بھی بہت سے ناقدین کو تحفظات ہیں۔ کئی ناقدین چیئرمین نیب کی عمر کے حوالے سے بھی سوالات اٹھاتے ہیں جبکہ کچھ برس پہلے ان کی ایک خاتون کے ساتھ مبینہ آڈیو ریکارڈنگ بھی منظر عام پر آئی تھی، جس کی وجہ سے وہ کئی حلقوں میں زیر بحث رہے تھے۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات