بااختیار میئر کراچی کے لیے سندھ حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان معاہدہ

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 28 جنوری 2022 20:40

بااختیار میئر کراچی کے لیے سندھ حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان معاہدہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جنوری 2022ء) سیاسی مبصرین کے مطابق جماعت اسلامی کی دو سالہ ''حق دو کراچی کو‘‘ تحریک اہم موڑ پر پہنچ گئی ہے اور وزیر اعلٰی سندھ کے بلدیاتی ترمیمی قانون کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کو ایک دانش مندانہ فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعلٰی سندھ نے جماعت اسلامی سے اپنی جماعت کے اندر بعض وزرا اور دیگر غیر منتخب عہدیداروں کی مخالفت کے باوجود معاہدہ کر کے کراچی میں خون خرابے کو روکنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے۔

ایم کیو ایم کو مذاکرات کی دعوت دینے کے مراد علی شاہ کے اعلان کو دانشمندانہ فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ہماری جدوجہد کراچی کے لیے ہے، حافظ نعیم

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان نے حکومت سندھ سے کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کرنے سے متعلق ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''ہم کراچی کی عوام سے مخلص ہیں اور ہم نے میئر کراچی کے لیے اختیارات کا مطالبہ کیا اور الحمد اللہ ہم بہت حد تک کامیاب رہے، اب میئر کسی بھی جماعت کا ہو بااختیار ہو گا۔

(جاری ہے)

‘‘

’یہ معاہدہ مختلف ہے‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر دو ہزار تیرہ میں ایم کیو ایم اپنا کردار ادا کرتی تو صورت حال اتنی خراب نا ہوتی۔ ان کے بقول سندھ حکومت سے جو معاہدہ ہوا ہے، وہ چوری چھپے نہیں ہوا۔ یہ معاہدہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے سابقہ معاہدوں سے مختلف ہے،''ہماری جدوجہد کراچی کو حق دلوانے کی ہے اور اگر سندھ حکومت نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی تو نا سندھ اسمبلی دور ہے اور نا وزیر اعلٰی ہاؤس لیکن مجھے امید ہے کہ سندھ حکومت معاہدے کا پاس ضرور کرے گی۔

‘‘

معاہدہ کیا ہے؟

بتایا گیا ہے کہ معاہدے پر دونوں جانب سے اتفاق رائے ہو گیا، جس کے تحت سندھ حکومت 2013ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں صوبائی اسمبلی کے ذریعے ترمیم لائی گی، جن امور پر رولز بنانے یا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی ضرورت ہے 2 ہفتوں میں سندھ حکومت یہ کام سرانجام دے گی۔

صحت سے متعلق سہولیات اور اختیارات جو ترمیمی بل کے ذریعے صوبائی حکومت نے بلدیاتی حکومت سے لے لیے تھے، وہ دوبارہ بلدیاتی حکومت کے سپرد کر دیئے جائیں گے اور اس سلسلے میں ایکٹ اور شیڈیول سے حذف کیے گئے اندراجات بحال کر دیے جائیں گے۔

تعلیم سے متعلق سہولیات/ اختیارات بھی دوبارہ بلدیاتی حکومت کے سپرد کر دیے جائیں گے۔ اسی طرح کے اور بھی کئی فیصلے کیے گئے ہیں۔

یہ بات بھی طے کی گئی کہ جماعت اسلامی کی جانب سے وزیر اعلٰی سندھ جناب مراد علی شاہ صاحب کو بھیجے گئے خط میں درج جن تجاویز پر اتفاق ہو گیا ہے، ان پر عملدرآمد اور جن نکات پر حکومت سندھ نے اتفاق نہیں کیا ہے، انہیں نتیجہ خیز بنانے کے کے لیے مذاکراتی کمیٹی اپنا کام جاری رکھے گی۔

پیپلز پارٹی نے حافظ نعیم کو 'ماموں‘ بنا دیا، خواجہ اظہار

سندھ حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان معاہدے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما خواجہ اظہار الحسن کا کہنا تھا، ''پورے یقین سے کہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی نے حافظ نعیم صاحب کو ماموں بنا دیا ہے، حافظ نعیم اپنا ندامتی بیان ابھی سے لکھ کر رکھیں، کیا جماعت اسلامی نے نعمت اللہ خان کے دور کا نظام منوا لیا؟ اتنی آسانی سے اتنی پرانی جماعت کیسے ان کے جھانسے میں آ گئی؟‘‘

خواجہ اظہار نے سندھ حکومت کو بھی اڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ مراد علی شاہ طے کریں کہ پالیسی وہ طے کریں گے یا سعید غنی؟،''ایک وزیر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے تو دوسرا غلطی تسلیم کرتا ہے۔

ایم کیو ایم فیصلہ اکیلے نہیں کرے گی بلکہ ہمارے مذاکرات میں کراچی کی تاجر اور صنعتکار تنظیمیں بھی شریک ہوں گی۔‘‘

وزیراعلی ہاؤس کی جانب مارچ کریں گے، مصطفٰی کمال

اس صورت حال میں پاک سرزمین پارٹی بھی 30 جنوری کو کراچی متنازعہ بلدیاتی ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کرے گی۔ اس تنظیم کے سربراہ مصطفٰی کمال، پرویز مشرف دور کا بلدیاتی قانون چاہتے ہیں۔

پی ایس پی کے سربراہ نے ڈوچے ویلے کو بتایا،''23 جنوری کو سندھ حکومت کا وفد ہمارے پاس بھی مذاکرات کے لیے آیا تھا اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ 70 فیصد مطالبات ماننے کو تیار ہیں، لیکن پھر پیپلز پارٹی کے وزرا نے مجھ پر ذاتی حملے کیے۔ ہم جماعت اسلامی کے پاس خود گئے تھے انہیں کہا تھا کہ آپ کے جھنڈے تلے مل کر جدوجہد کریں گے، لیکن ہم اتوار کو فوار چوک پر جمع ہوں گے اور وزیر اعلٰی ہاؤس کی جانب مارچ کریں گے اور اپنا حق لے کر ہی واپس آئیں گے۔‘‘