کراچی،سندھ اسمبلی کو دوسرے روز بھی صوبے میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق پیش کردہ تحریک التوا پر بحث کا سلسلہ جاری رہا

منگل 6 دسمبر 2022 21:25

1کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 دسمبر2022ء) سندھ اسمبلی میںمنگل کو دوسرے روز بھی صوبے میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق پیش کردہ تحریک التوا پر بحث کا سلسلہ جاری رہا جس میں حکومت اور اپوزیشن کے متعدد ارکان نے حصہ لیا۔ایم کیو ایم کی رکن منگلا شرما نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب ہو یا بارش یہ تمام قدرتی آفت ہیں جنہیں کوئی نہیں روک سکتا لیکن مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔

اس وقت متاثرہ علاقوں میںتمام لوگ پریشان ہیں،حکومت نے ضرور کچھ دیا ہوگا لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا عوام تک وہ پہنچا تھا۔لوگ قطاروں میں میں کھڑے تھے لیکن ان کوامدادی سامان نہیں ملا۔جہاز کے جہاز بھر کر آئے تھے۔لیکن لوگوں تک امداد کیوں نہیں پہنچی کیا ایسی پلاننگ کی گئی ہے کہ دوبارہ ایسا سیلاب آیا تو لوگوں کو نقصان سے بچایا جاسکے۔

(جاری ہے)

سندھ میںیو این کے سیکریٹری جنرل بھی صورتحال دیکھ کر گئے۔کیا تمام ملکی اور غیر ملکی فنڈز کو درست طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔جی ڈی اے کے رکن شہریار مہرنے اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ مثبت تنقید کی جائے۔انہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ نہیں کہیں گے آپ نے ڈوبایا ہے۔لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ آپ نے صوبے کو بچایا نہیں ہے۔

14سال سے صوبے کا کنٹرول آپ کے پاس رہا ہے۔کیا صوبہ ڈپٹی کمشنر چلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دو دو ارب روپے ڈپٹی کمشنر اٹھا کرلے گئے حالانکہ ڈپٹی کمشنر کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایک میٹنگ میں میں خود بھی ذاتی طور پر موجود تھا وہاں کہا گیا کہ ٹینٹ نہیں مل رہا ہے۔93 افراد شکار پور میں جاں بحق ہوئے۔وزیر اعلیٰ کہتے تھے 86 ہزار ٹینٹ تھے لیکن ملے کیوں نہیں۔

ہمیں میٹنگز میں کیوں نہیں بلایا گیا۔شہر یار مہر نے کہا کہ اس وقت بھی آپ نے سیاست کھیلی اورآپ نے اس وقت کرپشن بھی کی۔اس ساری تباہی کی ذمہ دارحکومت سندھ ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ آب پاشی کے لوگ جنریٹرز کا ڈیزل کھا جاتے تھے۔آفیسرز غائب تھے۔آب پاشی محکمہ کا پیسہ لگتا نہیں ہے۔ابھی بھی خیر پور، فیض گنج میں پانی کھڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ پانی تو دھوپ سے بھی سوکھ نہیں پارہا ہے۔

محکمہ صحت سے کہا گیا کہ اسپرے کرا دیں۔ہمارے ضلع میں ملیریا سے متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔لوگوں کی شکایت تھی ادویات نہیں ہیں ، 200 ارب کا محکمہ صحت کا بجٹ کہاں گیا۔ادویات کہاں جاتی ہیں۔جو بھی کمیٹیاں بنائیں اس میں اپوزیشن کو بھی رکھیں۔پیپلز پارٹی کی ندا کھوڑونے اپنی تقریر میں کہا کہ سندھ میں33 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں،سندھ میں سیلاب کی تباہی کی کوئی مثال نہیں مل سکتی ،جو گھر تباہ ہوئے وہ غریبوں کے تھے۔

پیپلز پارٹی غریبوں کی جماعت ہے۔ان کی بحالی ہمارے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف ملیریا اور ڈینگی کے ہزاروں کیسز سامنے آئے۔بین الاقوامی دنیا نے مانا کہ کم ریسورسز میں بہت کام کیا۔وزیر اعلیٰ نے خود تمام اضلاع میں دورہ کیا۔لاڑکانہ میں 83 ہزار ٹینٹ تقسیم کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ سیلاب کے زمانے میںجیسے حالات تھے اس میں سندھ حکومت نے کافی ریلیف پہنچایا۔

تحریک انصاف کے ارسلان تاج نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم آدھا سال پانی نہ ہونے پر روتے ہیں،آدھا سال کہتے ہیں پانی بہت زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کتنی مرتبہ سیلاب یہاں آچکا ہے۔پیپلز پارٹی کے اپنے اراکین نے خود کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔مارچ میں محکمہ موسمیات نے کہا تھا۔سیلاب آسکتا ہے لیکن سندھ حکومت کانپیں ٹانگنے والے مارچ میں تھی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ سندھ حکومت کے دور میں کورونا کی امداد کا پیسہ بھی کھا لیا گیا۔سیلاب کا پیسہ بھی کھا لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ درندے کون ہیں ان کو کیا اپنی آخرت کا خیال نہیں ہے۔یہ غریب عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ایک ایم این اے منرل واٹر سے اپنا جوتا صاف کررہے تھے جبکہ ایک ایم این اے پچاس پچاس کے نوٹ بانٹ رہے تھے۔اسی طرح ہمارے قومی اسمبلی کے اسپیکر کینیڈا میں انجوائے کررہے تھے اورسی ایم وزیر اعظم کی وڈیو بنا رہے تھے۔

ارسلان تاج نے کہا کہ سندھ کے عوام نے سیلاب کے زمانے میںسی ایم کو کیمرہ مین بنتے بھی دیکھا۔وزیر اعلیٰ یہ بتانا چھوڑ گئے۔جب وزیر اعلیٰ سکھر گئے تو سیلاب متاثرین پر تشدد کیاگیا۔انہوں نے کہا کہ جو شخص آپ کا مخالف بنتا ہے اس پر ایف آئی آر کاٹ دیتے ہیں۔سیلاب متاثرین پربھی ایف آئی آر کاٹ دی گئی۔اگر صحت اور تعلیم کا بجٹ درست خرچ ہو رہا ہے تو عمارتیں کیوں زمین بوس ہورہی ہیں۔

ہمارے خون پسینے کا پایہ کہاں خرچ ہورہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی شرمیلا فاروقی نے کہا کہ 2010 کا سیلاب ایک ریلا تھالیکن اس بارسیلاب میںہر جگہ پانی پانی تھا۔کہاں ٹینٹ لگائیں کوئی جگہ نہیں تھا۔محدود وسائل میں جتنا سندھ حکومت کرسکی۔ہر کسی کی مدد کی۔انہوں نے کہا کہ ہماری غلطی سے سیلاب نہیں آیا۔آپ کو ہمیں تجاویز دینی چاہیں۔24 لاکھ گھر بنانے ہیں۔

80 فیصد گھر جو تباہ ہوئے وہ کچے تھے۔ہمیں سیلاب سے متاثر نہ ہونے والے گھر بنانے ہیں۔انہوں نے اپوزیشن ارکان سے کہا کہ اگر آپ 15 منٹ وہاں کھڑے ہوکر سیلاب متاثرین کا حال دیکھتے۔آپ آج تنقید نہ کرتے۔ایم کیو ایم کے ناصر قریشی نے حکومت سے کہا کہ مجھے بتایا جائے کہ اس نے حیدر آباد میں کیا کیا ہے۔قبرستانوں میں سیلاب متاثرین اپنے پیاروں کو دفنانے کے لئے انتظار کرتے رہے۔

قبرستانوں پر لوگوں نے قبضہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ میرے حلقے میں کمیٹیاں بنائی گئیں۔اس میں ایم کیو ایم کو شامل نہیں کیا گیا۔آپ اپنی غلطیاں تسلیم کریں۔ابھی تک وہاں پر ابھی تک لائحہ عمل نہیں بنایا گیا۔حیدرآباد میں کوئی رائے لینی ہے تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ہم حیدرآباد کو آئیڈیل بنانا چاہتے ہیں۔پیپلز پارٹی کی خاتون رکن سعیدیہ جاوید نے اظہار خیال سندھ میں بارشوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے تھے ،سندھ میں بارش سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں ،کپاس کی 50 کی فیصد سے زائد فصل تباہ ہوگئی۔

یا وہ شارٹ مارچ میں خرچ ہوئے۔بلاول بھٹو کی کامیاب خارجہ پالیسی کی وجہ سے پوری دنیا نے پاکستان کی طرف توجہ دی۔ عوام کو سنہری خواب دکھانے والے صرف ٹیلی تھون پر بیٹھے رہے۔جی ڈی اے کا رفیق بھانبھننے کہا کہ ہمیں محکمہ آب پاشی نے ڈبویا ہے۔ہر چیز ڈوب گئی حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیر پور نہیں آئے اگر آئے تو ڈی سی آفس میں آئے تھے۔

تین ماہ گزر گئے ابھی تک پانی نہیں نکالا گیا ہے۔خیر پور میں تین ڈپٹی کمشنر تبدیل کئے گئے۔ہمارے ضلع میں صرف ایک مشین تھی جس سے پانی نکالا گیا۔آپ وڈیروں کو راشن دیتے تھے ،غریبوں کو راشن نہیں ملا۔بارشوں میں نہ ادویات ملی اور نہ ڈاکٹر دستیاب تھے۔انہوں نے کہ کہ سیلاب پر سیاست کی گئی۔فیض گنج کیا سندھ کا حصہ نہیں ہے۔صوبائی وزیر شہلا رضا نے تحریک التوا پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے بعد کیمپوں میں صرف پیپلز پارٹی کھڑی تھی۔

کراچی میں بھی سیلاب متاثرین آئے ،ہم رات میں ہر کام کرتے تھے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے لوگوں کی مدد سے راشن ، دریاں بھیجیں۔حکومت اکیلے کچھ نہیں کرسکی تھی۔ اپوزیشن والے گھر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ شہلا رضا نے کہا کہ پنجاب میں بیٹھ کر یہ کہا گیا۔جو امداد آئے گئی وہ ہم سندھ کو نہیں دیں گے۔یہ عوام دشمنی تھی یا پیپلز پارٹی دشمنی تھی ۔انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو ملک کے وزیر خارجہ ہیں۔انہوں نے بہترین سفارت کاری کی۔ہم ہر مصیبت میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ہم نے 2010 میں بھی لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ہم ابھی لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔بعدازاں سندھ اسمبلی کا اجلاس بدھ کی دوپہر تک ملتوی کردیا گیا