متنازعہ خطوں میں موسمیاتی تبدیلی سے انسانی زندگی کو لاحق خطرات بڑا چیلنج ہیں ، مقررین

موسمیاتی تبدیلی سے تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کوایک سنگین خطرہ لاحق ہے

جمعہ 15 ستمبر 2023 15:13

جنیوا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 ستمبر2023ء) انسانی زندگیوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے ایک سیمینار کے مقررین نے کہا ہے کہ متنازعہ علاقوں میں انسانی زندگی کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات عالمی دنیا کیلئے بڑا چیلنج ہیں ۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق سیمینار میں دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی ماہرین، انسانی حقوق کے کارکنوں، سفارت کاروں اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی۔

سیمینار کی نظامت کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سردار امجد یوسف خان نے کی جبکہ مقررین میں ڈاکٹر امتیاز خان ، ڈاکٹر سید وقاص علی کوثر، انسانی حقوق کے امریکی کارکن لیون سو، ڈاکٹر سائرہ فاروق شاہ ، سید محمد علی ، فاطمہ وحید شامل تھے ۔

(جاری ہے)

موسمیاتی تبدیلی کو عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کوایک سنگین خطرہ لاحق ہے جہاں کمیونٹیز کو سیاسی تنازعات، تشدد اور کثیر تعداد میں قابض فوج کی موجودگی کی وجہ سے بے شمار چیلنجز اور خطرات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار آبادیوں کو بچانے کیلئے اجتماعی ردعمل اور ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے۔ مقرر ین نے کہا کہ جموں و کشمیر کا علاقہ جس پر بھارت نے غیر قانونی طور پر قبضہ کررکھا ہے، وہ دنیا کے موسمیاتی تبدیلی سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ طویل عرصے سے جاری تنازعہ ایک طرف پورے علاقے کے افراد اور کمیونٹیز کی زندگی، صحت، خوراک اور زندگی کیلئے سنگین خطرہ ہے تو دوسری طرف درجہ حرارت میں اتار چڑھائو، پگھلتے ہوئے گلیشیئرزاور مسلسل بارشوں کی وجہ سے تباہ کن سیلاب نے خطے کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے جموںو کشمیر میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ "پانی کی کمی نے زرعی شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پانی کی قلت ک وجہ سے خوراک کی فراہمی اور معیاری خوراک تک رسائی میں خلل کے علاوہ فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر حصوں کی طرح کشمیر میں بھی زیر زمین پانی کی سطح گر گئی ہے ۔

مقررین نے کہا کہ کشمیر کی آب گاہیں جو سال بھر پرندوں کی سینکڑوں اقسام کی مسکن ہوا کرتی تھیں ، موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوئی ہیں۔کوہ ہمالیہ کے علاقے میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متعلق ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ کشمیر دنیا کا واحد علاقہ ہے جو برف پوش چوٹیوں، گلیشیئرز اور دریائی نظام کا مسکن بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطے کی متنازعہ حیثیت اور لاکھو ں کی تعداد میں بھارتی فوج کی موجودگی سے خطے کو درپیش خطرات کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

مقررین نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی تنازعات کا محرک ہو سکتی ہے لیکن جموں و کشمیر کے معاملے میں، تنازعہ بذات خود موسمیاتی تبدیلی کامحرک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک جو کہ گلوبل وارمنگ کے براہ راست ذمہ دار ہیں، انہیں موسمیاتی تبدیلی کے شکار ممالک کی مدد کرنے کیلئے آگے آنا چاہیے تاکہ وہ آفات سے نمٹنے اور آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے انکی صلاحیت اور استعداد کار کو بڑھا سکیں۔

کشمیر میں بڑے پیمانے پر قابض فوجیوں کے موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ فوج کی موجودگی ایک بڑا عنصر جو خطے کے لیے سنگین موسمیاتی مسائل کا باعث بن رہا ہے۔انہوں نے کہا، "بھارت کی طرف سے بھاری ہتھیاروں سے لیس دس لاکھ سے زیادہ فوجی خطے میں ماحولیاتی عدم استحکام کی سب بڑی وجہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ "تیزی سے پگھلتے ہوئے سیاچن گلیشیئر پر تعینات فوجی قدرتی ماحولیاتی نظام کو متاثر کر رہے ہیں اور وہاں پر فوجی سرگرمیاں درجہ حرارت میں اضافے کا باعث ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی تعیناتی بھی خطے کے ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کر رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں اور وسیع تر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کمیونٹیز اور ریاستی اداروں کے درمیان تعاون کے علاوہ قبل از وقت وارننگ سسٹم، سرحدوں سے باہر ڈیٹا شیئرنگ میکانزم کی ضرورت ہے تاکہ قدرتی آفات کے دوران نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ قیام امن کے حصول کیلئے انہوں نے کہا کہ ریاستوں کے درمیان باہمی اعتماد اور اشتراکیت کے ذریعے ہی سے جموں و کشمیر جیسے سیاسی مسائل کو حل کرکے ہی دنیا بھر میں امن کے قیام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔