معاشی اورادراندرونی بیرونی چیلنجز کے باوجود پاکستان کچھ معاملات میں اب بھی دنیا میں سب سے آگے

جمعرات 30 نومبر 2023 17:38

معاشی اورادراندرونی بیرونی چیلنجز کے باوجود پاکستان کچھ معاملات میں ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 نومبر2023ء) پاکستان اس وقت مہنگائی سے نبرد آزما ہے، اس کو معاشی مسائل کیساتھ دیگر اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا بھی سامنا ہے لیکن پاکستان اب بھی کچھ معاملات میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاس دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو ہے، دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی، پاکستان میں واقع ہے۔

اس کے علاوہ تین بلند ترین پہاڑی سلسلے ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ بھی اسی ملک میں واقع ہیں۔کے ٹوسلسلہ کوہ قراقرم، پاکستان میں واقع ہے۔ اس کی بلندی 8611 میٹر/28251 فٹ ہے۔ اسے پہلی بار 31 جولائی 1954 کو دو اطالوی کوہ پیماوں لیساڈلی اور کمپانونی نے سر کیا تھا۔ اسے ماونٹ گڈون آسٹن اور چوگو ری یعنی بڑا پہاڑ بھی کہتے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان کے پاس دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے جسے گوادر پورٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس بندرگاہ سے نا صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک مستفید ہوسکتے ہیں جن میں چین سرفہرست ہے۔ چین کے دفاعی، تجارتی، علاقائی، مفادات کے لیے گوادر بندرگاہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ چین اس بندرگاہ کو سب سے زیادہ اہم اس لیے بھی سمجھتا ہے کیونکہ چین کے پاس گرم پانیوں کی کوئی بھی بندرگاہ تاحال موجود نہیں ہے جو تمام سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو جاری و ساری رکھے۔

گوادر بندرگاہ کا ایک اور اہمیت یہ بھی ہے کہ اگر امریکا ابنائے ملاکہ کو بند بھی کر دے توپاکستان اور چین کے لیے بحیرہ عرب کا تجارتی راستہ ہمیشہ کے لیے کھلا رہے گا۔دنیا کی بلند ترین بلندی پر واقع پکی سڑک بھی پاکستان میں ہے۔ اس سڑک کو چین پاکستان فرینڈ شپ ہائی وے یا قراقرم ہائی وے بھی کہا جاتا ہے۔یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔

یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔ شاہراہ قراقرم پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ عجوبہ سڑک 20سال کے عرصے میں 1986 مکمل ہوئی اسے پاکستان اور چین نے مل کر بنایا تھا۔ اس کو تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان دی تھی۔

دنیا کی سب سے بڑی رضاکار ایمبولینس سروس بھی پاکستان میں چلائی جاتی ہے، جسے ایدھی فاونڈیشن چلاتی ہے۔ ایدھی فاونڈیشن پاکستان میں ایک فلاحی ادارہ ہے، جو 1951 میں مرحوم عبدالستار ایدھی کی طرف سے قائم کیا گیا تھا۔ ایدھی فاونڈیشن کی سرگرمیوں میں چوبیس گھنٹے کی ایمرجنسی سروس شامل ہے۔دنیا بھر میں فروخت ہونے والے نصف فٹ بال پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں بنتے ہیں۔

ہاتھ سے سلے ہوئے فٹ بال فروخت کرنے میں پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ایک اندازے کے مطابق سیالکوٹ میں سالانہ 40 ملین فٹبال کی تیاری کی جاتی ہے، تاہم ورلڈ کپ کے دوران ان کی تعداد 60 ملین تک پہنچ جاتی ہے۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس دنیا کا سب سے اونچائی پر واقع پولو گراونڈ ہے۔ یہ علاقہ شندور کہلاتا ہے جو پاکستان میں واقع ہے۔

شندور پولو میلہ ہر سال 7 سے 9 جولائی تک منایا جاتا ہے۔ یہ میلہ دنیا کے بلند ترین پولو گراونڈ شندور میں منایا جاتا ہے۔ اس میلے میں مایہ ناز کھلاڑی شرکت کرتے ہیں۔پاکستان دنیا کا واحد مسلم ملک ہے جس کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان نے بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر 5 کامیاب ایٹمی دھماکے کیے۔

اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے موسوم کیا گیا۔دنیا کے سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی بھی پاکستانی ہیں۔ ملالہ یوسفزئی کو کسی بھی شعبے میں نوبل انعام وصول کرنے والے سب سے کمسن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے جب مقامی طالبان نے لڑکیوں کو سکول جانے سے روک دیا تھا۔

اب ملالہ یوسفزئی کی تحریک بین الاقوامی درجہ اختیار کر چکی ہے۔دنیا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی تہذیب، جسے وادی سندھ کی تہذیب کہا جاتا ہے، اسی علاقے میں پروان چڑھی جہاں آج پاکستان ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب 3300 سے 1700 قبل مسیح تک قائم رہنے والی انسان کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ وادی سندھ کے میدان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاوں کے کناروں پر شروع ہوئی۔

اس کو ہڑپہ کی تہذیب بھی کہا جاتا ہے۔ ہڑپہ اور موئن جو دڑو اس کے اہم مراکز تھے۔ دریائے سواں کے کنارے بھی اس تہذیب کے آثار ملے ہیں۔ اس تہذیب کے باسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے۔ ان کے پاس بیل گاڑیاں تھیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے، کسان، جولاہے، کمہار اور مستری وادی سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔

دنیا کا سب سے بڑا مٹی کا ڈیم تربیلا ڈیم بھی پاکستان میں ہے۔ تربیلا ڈیم دریائے سندھ پر بنایا گیا تھا۔تربیلا ڈیم کی گہرائی 134میٹر اور لمبائی 97 کلومیٹر ہے۔ ا س ڈیم کو بنانے میں ورلڈ بینک کے علاقہ کینیڈا، برطانیہ ، اٹلی اور فرانس نے بھی مالی مدد کی تھی۔ اطالوی اورفرانسیسی کمپنیوں پر مشتمل ایک کنسورشیم تربیلا جوائنٹ وینچر کو تربیلا ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ ملا تھا۔ 1969 میں اس کنسورشیم میں جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی 7 کمپنیوں کا ایک گروپ بھی شامل ہو گیا تھا۔ اس ڈیم کا سنگ بنیاد 4 نومبر 1968 کو صدر جنرل محمد ایوب خان نے رکھا تھا اور اس کی تکمیل بھٹو صاحب کے دورحکومت میں 1976 میں ہوئی تھی۔