Live Updates

جیل یا سیاستدانوں کو 'کُندن' بنانے والی فیکٹری

DW ڈی ڈبلیو بدھ 10 جنوری 2024 18:20

جیل یا سیاستدانوں کو 'کُندن' بنانے والی فیکٹری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جنوری 2024ء) یہ کراچی کے علاقہ لانڈھی میں واقع جووینائل جیل کی ایک بیرک تھی، جہاں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے بھائی میاں شہباز شریف اور ن لیگ کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی، غوث علی شاہ اور سابق آئی جی سندھ رانا مقبول احمد مرحوم کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ہمراہ قید تھے۔

ان سب پر 1999ء میں سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف مرحوم کے طیارے کی ہائی جیکنگ کی سازش کا الزام تھا۔

شریف برادران کو جس بیرک میں رکھا گیا تھا وہ کراچی سینٹرل جیل کے پھانسی گھاٹ سے خاصی مماثلت رکھنے کے ساتھ ساتھ بلکل ویران تھی۔ اس وقت وہاں تعینات جیلر نے مجھے بتایا کہ 'فوجی حکام' کی ہدایت کے مطابق میاں نواز شریف کو یہ بتا دیا گیا ہے کہ ان کی بیرک کے سامنے جو ویران جگہ ہے وہ دراصل پھانسی گھاٹ ہے۔

(جاری ہے)

یہ نواز شریف پر ذہنی دباؤ کا پہلا حربہ تھا کیونکہ حکام کو معلوم ہوگیا تھا کہ نواز شریف طویل قید تنہائی سے گھبرا کر جیل سے نکنا چاہتے ہیں۔ ہائی جیکنگ کے مقدمے میں سزا کے بعد انہیں خدشہ تھا کہ کہیں جنرل مشرف کے ہاتھوں ان کا انجام بھی وہی نہ ہو جو جنرل ضیا کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کا ہوا تھا۔

آخر کار بیگم کلثوم نواز مرحومہ کی اپنے شوہر کو بچانے کے لیے دن رات کی جانے والی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور سعودی شاہ عبدللہ نے پاکستان کی فوجی قیادت پر دباؤ ڈال کر پورے شریف خاندان کو ایک تحریری معاہدے کے تحت سعودی عرب بلا لیا۔

نواز شریف 425 دن جیل کاٹنے کے بعد اپنے بھائی اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ دسمبر 2000ء میں جلا وطن ہو گئے۔ عمران خان کی طرح نواز شریف کے کئی پرانے ساتھی بھی اس موقع پر انہیں چھوڑ گئے تھے۔ چوہدری برادران نے اختلافات کے باوجود، بیگم کلثوم نواز کی ہر طرح سے مدد کی مگر نواز شریف کی رہائی اور ان کے لیے آواز بلند کرنے کا سارا کریڈٹ بیگم کلثوم نواز مرحومہ جیسی برد بار اور تحمل مزاج خاتون کو جاتا ہے۔

آج وقت بدل چکا ہے، کردار بدل چکے ہیں لیکن کہانی پرانی ہی لگتی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان، مخدوم شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کے دیگر رہنما، ظلم جبر اور نا انصافی کی شکایت کر رہے ہیں۔تاہم انہیں ایسا کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں آمروں کے ادوار کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ مثال کے طور پر ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں لاہور کے شاہی قلعے کے زیر زمین اندھیرے کمروں میں سیا سی قیدی رہنماؤں کو کیسے کئی کئی ماہ قید رکھ کر تفتیش کی جاتی تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف بھی لاہور کے قلعے میں قائم عقوبت خانے کے 'شاہی مہمان‘ رہ چکے ہیں۔

جب عمران خان کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے، ان دنوں مخدوم شاہ محمود قریشی اپنے والد مخدوم سجاد حسین قریشی مرحوم کے زیر سایہ سیاسی کھلاڑی بننےکی تربیت پارہے تھے۔ سجاد قریشی فوجی حکمران جنرل ضیاء کے دور میں پنجاب کے گورنر رہے تھے۔

عمران خان کے حامیوں کے بقول وہ ایک سیدھے سادھے سے سچے مسلمان ہیں۔ وہ سیاست کی چالوں اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلق کو نبھانے میں شاید اتنی مہارت نہ رکھتے ہوں جتنی کہ شاہ محمود قریشی کو ہے۔ ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ ''شاہ جی" ایک منصوبے کے تحت عمران خان کو فوج سے ٹکراؤ کی طرف لے کر گئے اور اس میں کچھ عمل دخل خان صاحب کے مزاج کا بھی ہے۔

عمران خان کے دور حکومت میں دسمبر 2018 میں نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل بھیجا گیا تھا۔ مگر اس مرتبہ نومبر 2019ء میں نواز شریف ناسازی طبع کا کہہ کر علاج کرانے کے لیے لندن جا پہنچے۔ لندن جانے کے بعد نواز شریف کی جو تصاویر سامنے آئیں، ان میں وہ کافی ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے۔

ملک کی سیاسی تاریخ میں جیل کا ذکر سابق صدر آصف علی زرداری کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

انہوں نے گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے گزارے ہیں۔ انہیں ان کی سیاسی زندگی میں کئی بار رہا اور گرفتار کیا گیا۔ 2019ء میں آخری مرتبہ انہوں نے چھ ماہ اڈیالہ جیل میں گزارے۔ میں نے مشکل سے مشکل ادوار میں انہیں جیل میں نہایت قریب سے دیکھا ہے۔ اپنے تجربے اور معلومات کی روشنی میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آصف زرداری کو جیل کاٹنے کا حوصلہ اور سلیقہ آتا ہے۔

سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ یہ کسی کا ساتھ نہیں دیتی اور لمہے بھر میں ایک با اثر سیاست دان جیل کی کوٹھری میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد وہی لوگ جو کبھی انہیں سلیوٹ مارتے تھکتے نہیں تھے اقتدار ختم ہونے کے بعد وہی ان پر ڈنڈے برسانے میں دیر نہیں کرتے۔ کہا جاتا ہے نا کہ اگر سیاست دان سلاخوں کے پیچھے کچھ وقت نہ گزار لے وہ سیاسی میدان کا کندن نہیں بن باتا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات