انتخابی نتائج سیاسی جماعتوں میں شراکت داری کے متقاضی

DW ڈی ڈبلیو پیر 12 فروری 2024 15:00

انتخابی نتائج سیاسی جماعتوں میں شراکت داری کے متقاضی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 فروری 2024ء) الیکشن کے بعد تاخیر سے آنے والے نتائج کی لائیو کوریج کرتے ہوئے ملک کے روایتی میڈیا میں تجزیہ کاروں کی توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ کون سی جماعت سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرتی ہے اور بڑے پارلیمانی حزب کون کون سی پارٹیوں کے ہوں گے۔ لیکن انہی انتخابات کے مختلف صوبوں میں کئی حلقوں سے موصول ہونے والے نتائج ایسے بھی ہیں، جو مقامی ہونے کے باوجود قومی سطح پر حیران کن رہے اور ووٹروں کے گزشتہ الیکشن تک نظر آنے والے رجحانات میں چونکا دینے والی تبدیلی کا اشارہ بن گئے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں سیاسی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق

پی ٹی آئی کے کارکنوں کا احتجاج، پولیس کا لاٹھی چارج

پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں، جن میں جمعیت علماء اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) شامل ہیں، کے انتخابی ایجنڈے کو رائے دہندگان نے یکسر مستردکر دیا۔

(جاری ہے)

اس کا ایک ثبوت یہ کہ حالیہ الیکشن میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی (ف) آئندہ قومی اسمبلی میں صرف تین نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو سکی۔

اسی طرح علاقائی سیاسی جماعتیں اور سیاسی اتحاد مثلاً عوامی نیشنل پارٹی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور بلوچستان عوامی پارٹی بھی کوئی قابل ذکر فتح حاصل نہ کر سکے۔ ان جماعتوں اور سیاسی دھڑوں نے اپنے اپنے لیے قومی اسمبلی کی ایک آدھ نشست اور متعلقہ صوبائی اسمبلی کی محض چند ایک سیٹوں سے تو بہت زیادہ کی توقع کی تھی۔

حالیہ الیکشن کے نتائج یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی ووٹروں نے اقتدار میں آنے کے لیے زیادہ تر تین بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت کی ہے، جو نئی قومی اسمبلی میں اپنی طاقت کے لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں۔

اس میں بھی قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بطور پارٹی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی تھی اور اس کے حمایت یافتہ امیدواروں نے الیکشن میں آزاد امیدواروں کے طور پر حصہ لیا تھا۔

اس کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار اپنی سیاسی سوچ کے لحاظ سے تو دیگر پارٹیوں کے باقاعدہ نامزد کردہ امیدواروں جیسے ہی تھے مگر قانونی دستاویزی طور پر وہ آزاد تھے اور ان سب کے انتخابی نشان بھی بہت مختلف اور متنوع تھے۔

یہ حالات اس صورت حال کی وجہ بنے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار قومی پارلیمان کے رکن منتخب ہونے والے بظاہر آزاد ارکان کی تعداد کسی بھی دوسری بڑی حریف پارٹی کے ارکان کی تعداد سے کہیں زیادہ رہی۔

ان انتخابات میں خواتین امیدواروں کے درمیان بڑے انتخابی معرکوں کی تعداد بھی ماضی سے زیادہ رہی اور کئی خواتین امیدوار اپنے حریفوں کے طور پر معروف سیاسی ناموں کو شکست دینے میں کامیاب رہیں۔

صوبہ سندھ کے اندرونی علاقوں کے انتخابی حلقوں میں جہاں روایتی طور پر پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت زیادہ ہوتی ہے، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن نے بظاہر سنجیدگی سے اپنے حریفوں کا مقابلہ کرنے کی سوچ نظر انداز کر دی۔ اسی لیے مولانا فضل الرحمان کی پارٹی جے یو آئی ایف کے امیدواروں نے بہت سی صوبائی نشستوں پر جیتنے والی ملکی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد اندرون سندھ میں دوسرے نمبر پر آ کر وہاں اپنی موجودگی میں واضح اضافہ کیا۔

گزشتہ جمعرات کو ہونے والے انتخابات اس حوالے سے بھی پہلے الیکشنز تھے کہ ملک کی سرکردہ سیاسی جماعتوں کے متعدد سربراہان کم ازکم ایک انتخابی حلقے سے ہار بھی گئے۔ ان میں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز، جماعت اسلامی، اے این پی اور جی ڈی اے کے رہنما شامل ہیں۔

کسی بھی جمہوری نظام میں کلیدی کردار ہمیشہ ان ووٹروں کا ہوتا ہے، جو یہ طے کرتے ہیں کہ ان کی طرف سے رائے دہی کے بعد کس پارٹی یا پارٹیوں کو کن شرائط پر حکومت کرنا چاہیے اور کس جماعت کو اس کی خراب کارکردگی کے باعث حکمرانی سے آئندہ دور رکھا جانا چاہیے۔

راولپنڈی میں چکلالہ کے رہائشی نبیل احمد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، "اس الیکشن کے نتائج کے مطابق عوام نے سیاسی جماعتوں کو اقتدار کا منقسم مینڈیٹ دیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملکی سیاست کا معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ گیا ہے۔ یہ اسی تقسیم شدہ مینڈیٹ کا نتیجہ ہے کہ عوام نے دراصل انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعتوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ حکومت سازی کے لیے آپس میں مشاورت کریں اور اقتدار میں شراکت داری کے ذریعے قومی سیاسی مسائل کے حل تلاش کریں۔

‘‘پاکستانی عوام نے ملک میں تقسیم کی سیاست کے خلاف جو رائے دی ہے، اسے ان کی اجتماعی سیاسی دانش کا مظہر ہی کہا جا سکتا ہے۔ سیاسی مسائل حل ہونا شروع ہوئے تو اقتصادی اور مالیاتی مسائل خود بخود حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔‘‘

آزادی رائے اور صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے سربراہ اقبال خٹک نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”کسی بھی انتخابی عمل کی شفافیت اور قبولیت کا اہم ترین پیمانہ اس عمل کی مکمل آزادی رائے کے ماحول میں تکمیل ہے۔

لیکن اس الیکشن میں ہم نے دیکھا کہ اس میں حصہ لینے والی جماعتوں کو برابری کی سطح پر سب سے بات کرنے اور اپنے حامیوں تک رسائی کے مساوی مواقع فراہم نہ کیے گئے۔ اس کے علاوہ حکومت اور کچھ سرکاری اداروں نے مل کر ملک میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سروسز پچھلے چند ہفتوں میں کئی بار معطل کر دیں۔‘‘

اقبال خٹک کے مطابق، ’’آج کے ڈیجیٹل دور میں اس طرح کی بندشیں لگانا عوام اور سیاسی جماعتوں کے تنظیمی حقوق سے انحراف ہے جو آئینی ضمانتوں کی نفی بھی ہے۔

میڈیا، صحافیوں، سیاسی جماعتوں اور ووٹروں پر اظہار رائے انٹرنیٹ اور موبائل سروسز پر پابندیاں اس لیے غلط ہیں کہ ان کے انتخابات کے نتائج اور مجموعی سیاسی منظر نامے پر اثرات منفی ہی تصور کیے جاتے ہیں۔‘‘

خواتین اور ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے لیے سرگرم صنفی امور کی ماہر سیدہ مجیبہ بتول نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”الیکشن دو ہزار چوبیس کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف تو عوام نے مذہبی جماعتوں کی سیاست کو واضح طور پر مسترد کر دیا وہیں پر خواتین امیدواروں کو بہت زیادہ پذیرائی بھی ملی۔

انتخابی امیدواروں کی کل تعداد 28،626 تھی جن میں سے گیارہ فیصد خواتین تھیں۔ قومی اسمبلی کی جنرل سیٹوں پر کئی خواتین کامیاب ہوئی ہیں۔ کئی حلقوں میں تو خواتین امیدواروں نے بہت منجھے ہوئے اپنے حریف مرد امیدواروں کو ہرا دیا۔ مثلاً تحریک انصاف کی حمایت یافتہ "آزاد” امیدوار زرتاج گل نے مسلم لیگ ن کے امیدوار دوست محمد کھوسہ کو ہرا دیا تو تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کو بھی شکست تحریک انصاف ہی کی ایمان وسیم کے ہاتھوں ہوئی۔

"

مجیبہ بتول نے بتایا، "پارلیمنٹ میںخواتین کی تعداد میں اضافہ سست روی سے ہو رہا ہے۔ لیکن یہ مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد امید کی ایک کرن سے کم نہیں۔ خواتین کی ملکی پارلیمان میں تعداد جتنی زیادہ ہو گی، اتنی ہی وہ معاشرے میں صنفی خلیج اور تفریق کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گی اور ہمارے پدرشاہی معاشرے میں خواتین کو درپیش سیاسی، سماجی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل بھی حل ہونے لگیں گے۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں میں تو داخلی سطح پر اپنی نمائندگی کے لحاظ سے بھی ملکی خواتین ابھی تک مردوں سے بہت پیچھے ہیں۔‘‘