ایرانی صدر کا دورہ پاکستان علاقائی سلامتی کے لیےکتنا اہم؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 21 اپریل 2024 18:00

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان علاقائی سلامتی کے لیےکتنا اہم؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2024ء) ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر بائیس اپریل کو اسلام آباد پہنچیں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے آج اتوار کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر رئیسی سوموار سے بدھ تک پاکستان کا دورہ کریں گے۔

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان دونوں پڑوسی ممالک کے مابین اس سال جنوری میں ایک دوسرے کے خلاف براہ راست حملوں کے تناظر میں اہم سمجھا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ ایرانی صدر کا پہلے سے طے شدہ اسلام آباد کا یہ دورہایران اور اسرائیل کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد شکوک و شبہات کا شکار ہو گیا تھا۔ ایران کی جانب سے تیرہ اپریل کو اسرائیل پر تین سو سے زائد ڈرون اور میزائل داغنے کے بعد اسرائیل نے جمعرات کو ایرانی شہر اصفہان کے نزدیک مبینہ طور پر ایک فوجی اڈے کو نشانہ بنایا تھا۔

(جاری ہے)

پاکستان نے جنوری میں عندیہ دیا تھا کہ رئیسی اسلام آباد کا دورہ کریں گے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ یہ دورہ ''بہت جلد‘‘ ہو گا۔

تہران نے جمعہ کے روز اسرائیلی حملے کو غیر اہم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی جوابی کارروائی کا ادارہ نہیں رکھتا۔ تہران کی جانب سے یہ ایک ایسا ردعمل ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غزہ جنگ کو علاقائی تصادم میں بدلنے سے روکا جا رہا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ رئیسی اپنے دورے کے دوران پاکستان کے صدر، وزیر اعظم، سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر سے ملاقاتیں کریں گے۔

بیان میں کہا گیا ہے، ''وہ (رئیسی) علاقائی اور عالمی پیش رفت اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ تعاون پر بھی بات کریں گے۔‘‘

مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے علاقائی اثرات

پاکستان نے مشرق وسطیٰ میں تمام فریقین سے مطالبہ کیا ہے، ''وہ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی میں کمی کی طرف بڑھیں۔‘‘ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جواپنی ریاستی پالیسی کے تحت اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ کی مخالفت کرتا ہے اور اقوام متحدہ میں بھی اس حوالے سے فلسطینوں کے حق میں آواز اٹھاتا آیا ہے۔

ایران کی طرح پاکستان کے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم پاکستان کا اسرائیل کے ساتھ کوئی براہ راست تنازعہ بھی نہیں ہے۔ اسی لیے اس بات کے کم امکانات ہیں کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کا رئیسی کے دورہ پاکستان پر کچھ زیادہ اثر ہو گا۔ تاہم ان دونوں کے سکیورٹی تعلقات کے حوالے سے ایشوز پر بات چیت اہم ہو گی۔

ایران اور پاکستان کے مابیں تعلقات میں نشیب و فراز کی ایک تاریخ رہی ہے لیکن جنوری میں دونوں ملکوں کے ایک دوسرے پر کیے گئے حملے کئی سالوں میں کشیدگی کے دوران سب سے سنگین واقعات تھے۔

ان حملوں کی ابتدا ایران کی جانب سے پاکستانی صوبے بلوچستان میں ایک ڈرون حملے سے ہوئی تھی۔ تہران کا موقف تھا کہ اس نے 'جیش العدل‘ نامی ایک سنی عسکریت پسند گروہ کو نشانہ بنایا ہے، جو ایران کے اندر مبینہ دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہے۔

پاکستان نے اس کے جواب میں ایرانی صوبے سیستان بلوچستان پر ایک میزائل حملہ کیا۔ پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایران میں موجود مسلح بلوچ علیحدگی پسندوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا ہے، جو پاکستانی صوبے بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

اس تناؤ کے درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے تیز تر کوششوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ ایک دوسرے کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں، جبکہ سیکیورٹی تعاون کو بڑھانے کا عزم کرتے ہیں۔

پاک ایران اقتصادی تعلقات

رئیسی لاہور اور کراچی سمیت بڑے شہروں کا دورہ کریں گے اور دو طرفہ اور تجارتی تعلقات پر توجہ دیں گے۔

پاکستان اور ایران کے مابین اقتصادی تعلقات کی بات کی جائے تو سب سے نمایاں منصوبہپاک ایران گیس پائپ لائن کا ہے، جس پر ابھی عمل درآمد رُکا ہوا ہے۔ ویسے تو یہ منصوبہ نوے کی دہائی کا ہے لیکن اس پر اہم پیش رفت 2013ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اور خاص طور پر اس وقت کے اور ابھی موجودہ صدر آصف زرداری کی موجودگی میں ہوئی تھی۔ زرداری نے ایران کے دورے کے دوران اس پائپ لائن کا افتتاح کیا تھا۔

تاہم اس کے بعد سے اس منصوبے میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی اور یہ بظاہر کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اقتصادی اور خاص کر توانائی کے بحران کے شکار پاکستان کے لیے اس منصوبے کی بہت اہمیت ہے تاہم امریکی تحفظات کی وجہ سے پاکستان اس منصوبے پر پیش رفت میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

امریکہ کھلے عام ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کی بین الاقوامی تجارت کا مخالف ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے شکار ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والے ممالک بھی ان پابندیوں کے دائرے میں آ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار کھل کر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی مخالفت کر چکے ہیں۔

ش ر ⁄ ا ا (روئٹرز)