نواز شریف ’موروثی یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ سیاست کے داعی؟

DW ڈی ڈبلیو پیر 29 اپریل 2024 18:20

نواز شریف ’موروثی یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ سیاست کے داعی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 اپریل 2024ء) پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی صدارت ایک بار پھر سابق وزیراعظم نواز شریف کے پاس جانے کی خبروں اور اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیر اعظم تقرری نے سیاسی پنڈتوں کو اس جماعت کی اندرونی اور ملکی سیاست کے مستقبل سے متعلق قیاس آرائیوں میں مصروف کر رکھا ہے۔

خود مسلم لیگ ن کے رہنما ان مزکورہ دونوں باتوں کو ’معمول کی کارروائی‘ قرار دے رہے ہیں۔

اس جماعت کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی غیر موجودگی میں پارٹی کی تنظیم سازی پر بہت اثر پڑا ہے اور یہ کہ سابق وزیراعظم پارٹی کو منظم کریں گے اور اسے مزید متحرک بنائیں گے۔

تاہم مسلم لیگ ن کے مخالفین کا کہنا ہے کہ پارٹی کی طرف سے یہ فیصلے موروثی اور اقربا پروری پر مبنی سیاست کو مزید مضبوط کرنے کے مترادف ہیں۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ سابق وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے حال ہی میں نواز شریف کی جانب سے جلد ہی ایک مرتبہ پھر پارٹی صدارت سنبھالنے کا انکشاف کیا تھا۔

ن لیگ کے ایک مرکزی رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے اس حوالے تصدیق کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ میاں نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر پارٹی کا صدر بنایا جائے گا۔

انہوں نےکہا، '' میاں نواز شریف کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسلم لیگ نون کو نہ صرف سیاسی سطح پر نقصان ہوا بلکہ تنظیمی سطح پر بھی اس کا بہت نقصان ہوا اور ہمیں امید ہے کہ جب نواز شریف کو پارٹی کی صدارت دی جائے گی تو پارٹی ایک بار پھر بھرپور طریقے سے منظم اور متحرک ہوگی۔

‘‘

’پارٹی میں کوئی دھڑے بندی نہیں‘

اقبال ظفر جھگڑا نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ پارٹی میں کوئی اسٹیبلشمنٹ نواز یا جی ایچ کیو مخالف گروپس موجود ہیں۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''ہر پارٹی میں اختلاف رائے ہوتا ہے اس کو دھڑے بندی بالکل بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ہماری پارٹی میں بھی لوگوں کی مختلف رائے ہوتی ہے لیکن جب نواز شریف قومی مفادات کے حوالے سے کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں تو پوری پارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔

‘‘

پی ٹی آئی کی سخت تنقید

تاہم پاکستان مسلم لیگ نواز کے مخالفین اس فیصلے پر نواز شریف کی جماعت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اس فیصلے پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار نے اس فیصلے کو ایک ایسی کوشش قرار دیا جس کا مقصد پنجاب اور وفاقی حکومتوں اور پارٹی دونوں پر شریف فیملی کا قبضہ کرنا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' شریف فیملی ایک بار پھر شاہی فیملی بننے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے پہلے 1990ءکی دہائی میں انہوں نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کو ایک خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔‘‘ شاندانہ گلزار کے مطابق تاہم اس آئینی ترمیم کو سینیٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ ''اگر وہ پندرویں آئینی ترمیم منظور ہو جاتی تو یہ اب تک شاہی فیملی بن چکے ہوتے۔

‘‘

نعرے پر سودے بازی

بعض سیاسی مبصرین کے نزدیک نواز شریف کا پارٹی کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ بنیادی طور پر پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیوں کو زندہ کرنا ہے اور اور حالیہ برسوں میں پارٹی کو جی ایچ کیو کی قربت کی وجہ سے جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ کرنا ہے۔

اس حوالے سے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے، جو نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے سمدھی بھی ہیں۔

تاہم معروف کالم نگار امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون میں اب کوئی سخت گیر یا معتدل گروپ نہیں ہے۔

امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مسلم لیگ نواز کئی بار یہ کہہ چکی ہے کہ شہباز شریف کوئی بھی کام نواز شریف سے پوچھے بغیر نہیں کرتے ہیں۔ نون لیگ نے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرہ لگایا تھا لیکن اس کے بعد انہوں نے اس نعرے پہ سودے بازی کر لی اور اس سودے بازی کا نواز شریف بھی حصہ ہیں۔

‘‘

شہباز سوچ غالب آگئی

امتیاز عالم کے مطابق مسلم لیگ نون میں شہباز شریف کی سوچ غالب اگئی ہے اور اب اسٹیبلشمنٹ یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی بات کرنا بالکل بوگس ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہون نے کہا، ''مسلم لیگ نون کی سودے بازی کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں دو شخصیات کو نقصان ہوا ہے۔ ایک بلاول بھٹو زرداری جن کے والد نے ان کو سائیڈ لائن کر کے صدارت سنبھال لی اور دوسرے شہباز شریف جنہوں نے اپنے بھائی کو سائیڈ لائن کر کر وزارت عظمٰی کی کرسی لے لی۔

‘‘

نواز شریف کے پارٹی صدر بننے کے فیصلے کے دیگر ممکنہ مقاصد کے حوالے سے امتیاز عالم نے کہا کہ نواز شریف سودے بازی کر چکے ہیں اور اسی سودے بازی کی وجہ سے ان کے مقدمات ختم ہوئے اور ان کے بیٹوں کے مقدمات ختم ہوئے۔ ''اور اب وہ پارٹی کو ہاتھ میں لے کر اپنے آپ کو یہ تسلی دینا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی انچارج ہیں کیونکہ پارٹی اجلاسوں میں وزیراعظم بھی ان کے ماتحت بیٹھیں گے۔‘‘