Sراحت ملک کی کتاب انحطاط کی تقریب رونمائی

ذ*یقینا راحت ملک نے اپنی کتاب میں جس موجودہ صوبائی اور ملکی جس صورتحال کی عکاسی کی ہے وہ بالکل درست ہو گی مگر میں ذاتی طور پر اس سے اختلاف کرتا ہوں،نوابزدہ حاجی میر لشکری رئیسانی و دیگر مقررین کا خطاب

ہفتہ 4 مئی 2024 22:45

[>کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 مئی2024ء) راحت ملک کی کتاب انحطاط کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کا انعقاد الحمد یونیورسٹی کے کوئٹہ کیمپس کے ہال میں الحمد اسلامک یونیورسٹی کے تعاون سے عمل میںلا یاگیا۔ تقریب سے مجلس صدارت کے فرائض ڈاکٹر عرفان احمد بیگ ، مہمانان خصوصی میں سابق سینیٹر، بلوچستان پیس فورم کے چیئرمین سیاسی و قبائلی شخصیت نوابزدہ حاجی میر لشکری رئیسانی نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر اسحاق بلوچ،سابق صوبائی وزیر رحمت صالح بلوچ،اعزازی مہمانان میں سرور جاوید، فرزانہ راحت ملک اور وحید زہیرشامل تھے۔

تقریب میں نامور ادیبوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر سلیم کرد، ڈاکٹر تاج رئیسانی، افضل مراد، محسن شکیل سمیت دیگر شامل تھے۔

(جاری ہے)

تقریب کے نظامت کے فرائض ڈین آف لینگوئیجز الحمد اسلامک یونیورسٹی اسلام ڈاکٹر شیر افضل اور جویرہ ملک نے نے سر انجام دیئے۔تقریب سے سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کئی رہنماں اور کارکنان نے شرکت کی۔ تقریب سے الحمد اسلامک یونیورسٹی کے اکیڈمک سٹاف سمیت ایم فل، پی ایچ ڈی اور ایم ایس کے طلباکی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ تقریب سے ڈاکٹر عرفان احمد بیگ صاحب، سابق سینیٹر، بلوچستان پیس فورم کے چیئرمین سیاسی و قبائلی شخصیت نوابزدہ حاجی میر لشکری رئیسانی نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر اسحاق بلوچ،سابق صوبائی وزیر رحمت صالح بلوچ،سرور جاوید، فرزانہ راحت ملک ،وحید زہیراور منصور گل نے راحت ملک کی کتاب ان کی شخصیت سیاسی و علمی جدوجہد کے بارے میں اظہار خیال کیا اور مقالات پیش کئے۔

تقریب میں نامور ادیبوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر سلیم کرد، ڈاکٹر تاج رئیسانی، افضل مراد، محسن شکیل سمیت دیگر شامل تھے۔ تقریب سے سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کئی رہنماں اور کارکنان نے شرکت کی۔ تقریب سے الحمد اسلامک یونیورسٹی کے اکیڈمک سٹاف سمیت ایم فل، پی ایچ ڈی اور ایم ایس کے طلباکی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نوابزدہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے کہا کہ یقینا راحت ملک نے اپنی کتاب میں جس موجودہ صوبائی اور ملکی جس صورتحال کی عکاسی کی ہے وہ بالکل درست ہو گی مگر میں ذاتی طور پر اس سے اختلاف کرتا ہوں۔ اختلاف کیوں کرتا ہوں اس کی وجہ ہے کیونکہ ہماری قلم کار ، ادیب ودانشور جسے سیاسی و سماجی مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے وہ صرف قلم کی حد تک ہی محدود رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان کے موجودہ نظام کو دیکھا جائے تو راحت ملک کی کتاب انحطاط اس نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہ اگر بلوچستان کی تاریخی سیاسی پس منظر کو دیکھا جائے تو یہاں کے 1970کے پارلیمنٹ کے ان منتخب افراد کا ذکر میں ضرور کرنا چاہوں گا جنہوں نے ارتقاعمل کو پروان چڑھایا۔ جنہوں نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے ارتقائی عمل کے ذریعے نکلے اور اعلی تعلیمی اداروں سے پرورش پائی اور بلوچستان کے حقیقی مسائل پر انہوں نے کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی رہنماں میں غوث بخش بزنجو، نواب غوث بخش رئیسانی، میر گل خان نصیر، نواب اکبر بگٹی، نواب خیر بخش مری و دیگر کا نام آتا ہے۔ انہوں نے کبھی بلوچستان کے قومی انا کا سودا نہیں کیا۔ وہ پارلیمنٹ کا حصہ رہے انہوںنے بلوچستان کی اصل تصویر دنیا کے سامنے رکھنے کی کوشش کی۔ نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ آج کے پارلیمنٹ کو اگر میں ماضی کے پارلیمنٹ کے سامنے دیکھتا ہوں تو مجھے سب کچھ الٹا نظر آتا ہے۔

آج کے پارلیمنٹ میں منتخب نمائندوں پالیسیاں بنانے نہیں بلکہ ٹھیکوں کے خواہش مند زیادہ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے آج کے پارلیمنٹ میں لوگ منتخب ہو کر نہیں بلکہ ٹھیکوں کی بندر بانٹ میں سبقط رکھنے کے معیار پر سلیکٹ ہو کر آتے ہیں۔ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ آج میں منتخب نمائندے سے یہ سوال ہرگز نہیں کروں گا کہ آپ بلوچستان کے مسائل کے حل کے کونسے ایسے پالیسی کو بہتر سمجھتے ہیں جو بلوچستان کی محرومیوں کا خاتمہ ہو بلکہ میں آج یہ سوال بلوچستان کے ان طلباسے پوچھنا چاہوں کہ جو اپنے مستقبل اس بلوچستان میں دیکھتے ہیںجنہوں نے بلوچستان کے مستقبل کے فیصلے کرنے ہیں۔

کیا آج کے یہ پارلیمنٹ ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہر طالب علم خود سے یہ سوال پوچھے اپنے دیگر طالب علم ساتھیوں سے یہ سوال پوچھے کہ کیا ان کے تعلیم کے لئے موجودہ پارلیمنٹ کوئی بہتر پالیسی رکھتی ہے۔ کیا یہ پارلیمنٹ صرف ٹھیکوں کی بندر بانٹ کرکے بلوچستان کے مستقبل کو سنوارے گی۔ کیا یہ پارلیمنٹ حقیقی قومی ساخت کو برقرار رکھنے میں اپنے کردار ادا کر سکتی ہے۔

اگر طلباآج یہ سوال کریں گے تو انہیں اپنے مستقبل کے فیصلوں کے بارے میں بہترین فیصلہ کرنے کی سوچ پیدا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ میں راحت ملک کے کتاب انحطاط ہی سے یہ بات سمجھ آتا ہے کہ بلوچستان نے ماضی کے نظام سے اور موجودہ نظام کی طرف انحطاط و زوال کا سفیر کیا ہے۔ نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے کتاب کی تقریب رونمائی پر ان کے خاندان کو مبارکباد پیش کی ۔

تقریب کے مجلس صدارت کے فرائض سر انجام دینے والے ڈاکٹر عرفان احمد بیگ نے کہا کہ راحت ملک سے میرا تعلق صحافت کے دور سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی سیاست کے حوالے سے دیگر مقررین نے اظہار خیال کر لی ہے مگر میں نہیں سمجھتا کہ راحت ملک کی مکمل زندگی ایک دن کی اس مختصر تقریب میں مکمل نہیں سمجھی جا سکتی۔انہوں نے کہا کہ راحت ملک کے ساتھ ایک مثبت صورت ان کی مالی خوشحالی اور فراغ دلی تھی ۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خصوص نسخوں سے لوگوں کا علاج بھی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ راحت ملک کی گہری دوستیاں اپنے عہد کی اہم ادبی و علمی شخصیات کے ساتھ تھیں جن میں بلوچستان سے عطاشادہ، گل خان نصیر، خادم مرزا، عین سلام، سمیت دیگر بہت سے ادیبوں اور شعراسے تھی جب کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، قتیل شفائی، احسان دانش، اشفاق احمد، جمال احسانی ، صادقین ، جمال الدین عالی، اور پھر احمد فراز توان کے بہتر گہرے دوست تھے وہ جب بھی کوئٹہ آتے تو سرکار کے دعوت نامے کے باوجود راحت ملک کے مہمان ہوتے تھے۔

ان کے بہت ذاتی اور خصوصی تعلقات بھارت کے مشہور شاعر گلزار کے ساتھ تھے۔ وہ بھارت کے دورے پرگئے طویل ملاقاتین وزیر اعظم اور بھارتی دانش ر آئی کے گجرال، گلزار صاحب اور کلکتہ یوکول کتہ میں انڈین کیمونسٹ پارٹی کے لیڈر سے کیں اور واپسی میں کتاب لکھی جن میں ان تینوں کے انٹرویز تھے یہ ایک لاجواب کتاب ہے ان کی کتابوں میں ہمیں اپنے عہد کے معاشرتی سیاسی مسائل اور ان کے حل کی تجاویز بہت مدلل انداز میں ملتیں ہیں اسی طرح وہ زندگی عملی طور پر بھی ادب، سماجیات اور سیاسیات کے شعبوں میں سینکڑوں سیمیناروں میں شرکت کرتے رہے اور اپنے افکار سے معاشرے کو نوازتے رہے ان کی کمی کو طویل عرصے تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔

نامور شاعر و ادیب سرور جاوید نے راحت ملک کی کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ راحت ملک جس خوش اسلوبی سے اپنی پوری زندگی سیاسی، علمی و ادبی ماحول کو فراہم کیا اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ راحت ملک کی زندگی ہم سب کے لئے ایک مثال اور اعزاز کی صورت ہے۔ ان کی کتاب انحطاط جہاں ملکی و بین الاقوامی مسائل و واقعوں کی عکاسی کرتی ہے وہیں اس میں کہیں نہ کہیں راحت ملک کی شخصیت بھی نظر آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ راحت ملک کے نا صرف کتابیں تو اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں مگر راحت کی ہر مضمون اپنے اندر الگ سی ایک دنیا بسائے بیٹھی ہے۔ ان کے ہر مضمون پر الگ سے تقریب ،تحقیق ، بات چیت و بحث ہو سکتی ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق صوبائی وزیر و نیشنل پارٹی کے رہنما رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ راحت ملک کی سیاسی و ادبی زندگی کا سفر ایک بہت ہی دلچسپ سفر ہے۔

میں سیاسی طالب علم کی حیثیت سے راحت ملک کو اپنا استاد مانتا ہوں۔ انہوں نے کہ بلوچستان کے موجودہ صورتحال کی عکاسی راحت ملک کی تحریروں میں ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ راحت ملک بلوچستان کا درد رکھنے والے حقیقی سیاست دان تھے۔ ان کی تجزئیوں اور کالموں کو پڑھنے سے بلوچستان کے حقیقی مسائل سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اسحاق بلوچ نے کہا کہ راحت ملک سیاسی و ادبی شخصیت کے علاوہ ایک بہترین شخصیت کے بھی مالک تھے۔

راحت ملک سے اکثر ملاقاتیں پارٹی کے تقریبات میں ہونے علاوہ ان کے چائے خانہ یا کاروباری مرکز پر ہوا کرتی تھی۔ راحت ملک جہاں سیاسی دا پیچ کے ماہر تھے وہاں وہ زندگی کے اصل پہلوں کو سمجھتے بھی تھے۔ جن کے گفتگو کے بعد اکثر مسائل کو حل کی راہ ملتی تھی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کی اہلیہ فرزانہ راحت ملک نے کہا کہ راحت ملک ایک بہترین انسان کی صورت میں قدرت کی طرف سے انہیں تحفے کی صورت میں ملا ہے۔

انہوں نے کہ راحت ملک جہاں ایک ادیب، قلم کار، کاروباری شخصیت تھے وہاں وہ ایک بہترین شوہر اور شفیق باپ کے طور پر خود کو منوا چکے تھے۔ مجھ سمیت میرے خاندان کے دیگر افراد کو ان کے جانے کا بالکل بھی یقین نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہ راحت ملک آج بھی ہم میں زندہ ہے اپنی سوچ، اپنے نظرئیے کی بنیاد پر آج بھی راحت ملک کہیں نا کہیں نظر آتا ہے۔ انہوں نے راحت ملک کے خود پر احسانات اور بیماری کے آخری ایام میں ان کی ثابت قدمی کا تفصیلی ذکر قارئین کے سامنے پیش کیا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقالہ نگار، و ادیب وحید ذہیر نے ان کی ذاتی، سیاسی و ادبی زندگی پر کرم خوردہ وقت و حالات کی دہلیز پر پڑا دانشور کے عنوان سے مقالہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ راحت ملک ایک قوم دوست سیاست دان و دانشور کی طرح کڑھتے رہنے کے علاوہ عملی طور پر ہر kجہالت کے سامنے کھڑے رہے۔ راحت ملک کی تحریریں ان کی مثبت سوچ کے عکاسی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے ہمارے ہاں مثبت سوچ قابل نفرت و گردن زدنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ راحت ملک کا یہ اعزاز بابا بزنجو کی پر امن سیاستی کی خواہش کی سنگتی کا نتیجہ ہے۔ وہ ہمیشہ بکھرتی تنظیموں اور کارکنوں کو سمیٹنے کے لئے سرگردان نظر آئے۔ ریوڑیوں کی طرح غلط فہمیاں باٹنے والوں کے نقاد رہے۔ ہر شریف آدمی طرح جاہلوں کے نشانے پر رہے۔

اس کے باوجوہ مستقل مزاجی کے ساتھ ترقی پسندی کے وہ ہمیشہ علمبردار رہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر منصور گل نے راحت ملک کی قلمی زندگی کا خاکہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ راحت ملک کے مضامین سماجی مسائل، تاریخی داستانوں اور عصری چیلنجوں کے ساتھ ان کی گہری وابستگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اپنی شاندار تحریر کے ذریعے، انہوں نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے، اقتصادی پالیسیوں اور سماجی حرکیات کے بارے میں گہرا تجزیہ پیش کیا۔

معروف اخبارات اور رسائل میں شائع ہونے والے ان کے کالموں، مضامین اور تحقیقی مقالوں نے ملک کے ابھرتے ہوئے حقائق کے بارے میں قیمتی بصیرت فراہم کی۔انہوںنے کہا کہ راحت ملک کی ادبی اور علمی وراثت دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کی آئندہ نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔ سچائی، انصاف اور فکری تحقیقات کے لیے ان کی غیر متزلزل لگن سماجی تبدیلی اور ترقی کے لیے پرعزم افراد کے لیے رہنمائی کا کام کرتی ہے۔

ان کے غیر مطبوعہ کام اور تحقیق بہت جلد اشاعت کے لیے تیارکر لی جائیں گی۔تقریب میں الحمد اسلامک یونیورسٹی کے ڈین آف لینگوئجز ڈاکٹر شیر افضل نے ان کی سیاسی و ادبی زندگی پر اثر باتیں قارئین کی سامنے پیش کیں۔ انہوں نے ان کے زندگی کو شعراکے کلام کے ساتھ منسلک کرکے پیش کیا جس سے قارئین کا توجہ تقریب کی جانب پرجوش انداز میں رہا۔ تقریب کے آخر میں تمام شرکانے راحت ملک کی کتاب کی تقریب پذیرائی کی۔