ہمالیہ پر کم برفباری پانی کی فراہمی کے لیے خطرہ، نئی اسٹڈی

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 22 جون 2024 19:00

ہمالیہ پر کم برفباری پانی کی فراہمی کے لیے خطرہ، نئی اسٹڈی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جون 2024ء) حال ہی میں جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس بلند و بالا پہاڑی خطے سے کل 12 بڑے دریا نکلتے ہیں اور ان دریاؤں کے پانی کا ایک چوتھائی حصہ برف پگھلنے سے پیدا ہونے والے پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔

نیپال میں قائم انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (ICIMOD) کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ''یہ محققین، پالیسی سازوں اور دریاؤں کے کناروں پر آباد برادریوں کے لیے ایک انتباہی پیغام ہے۔

‘‘

اس رپورٹ کے مصنف شیر محمد کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''خاص طور پر رواں برس برف کے کم جمع ہونے اور برف کی سطح میں اتار چڑھاؤ سے پانی کی قلت کا بہت سنگین خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

اس رپورٹ کے مطابق ہمالیہ کی برف پہاڑی علاقوں میں آباد تقریباً 240 ملین لوگوں کے ساتھ ساتھ نیچے دریائی کناروں پر آباد مزید 1.6 بلین افراد کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

صدی کے آخر تک ہمالیہ کے دو تہائی گلیشیئرز پگھل جانے کا خطرہ

ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں ہر سال برف کی سطح میں اتار چڑھاؤ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشیں زیادہ ہو رہی ہیں اور موسمیاتی پیٹرن بدل رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق ہمالیہ کے متعدد حصوں میں برف کی تہہ کی پیمائش کی جاتی ہے۔

رواں برس کی پیمائش سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوکش اور ہمالیہ کے اس وسیع علاقے میں برفانی تہہ معمول سے پانچواں حصہ کم تھی۔

شیر محمد کا کہنا تھا، ''اس سال کی برفباری (معمول سے 18.5 فیصد کم) گزشتہ 22 برسوں میں ہونے والی دوسری کم ترین برفباری تھی۔ اس سے قبل سن 2018 میں 19 فیصد کی کم ترین شرح ریکارڈ کی گئی تھی۔‘‘

انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ ایک بین الحکومتی تنظیم ہے اور اس میں نیپال کے ساتھ ساتھ پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت اور میانمار بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ''مشاہدات اور تخمینے ندیوں کے بہاؤ کے وقت اور شدت میں اہم تبدیلیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، جس میں برف کا ایک اہم کردار ہے۔‘‘

اس مطالعاتی دستاویز میں مزید کہا گیا ہے، ''موسمی پانی کی دستیابی کو یقینی بنانے میں برف خاص طور پر اہم کردار ادا کرتی ہے۔‘‘

یہ تنظیم دو دہائیوں سے اس خطے میں برف کی سطح کی نگرانی کر رہی ہے اور اس کے مطابق سن 2024 میں آنے والی یہ اب تک کی ایک ''اہم تبدیلی‘‘ تھی۔

رواں برس کے دوران اب تک دریائے سندھ میں برفانی پانی کا حصہ معمول سے 23 فیصد کم رہا ہے۔

بھارت کا دریائے گنگا ملک بھر سے گزرتا ہے اور رواں برس اس میں برفانی پانی کا حصہ معمول سے 17 فیصد کم رہا ہے۔

اسی طرح افغانستان کے دریائے ہلمند میں برف پگھلنے سے بننے والا پانی معمول سے 32 فیصد کم تھا، جبکہ دریائے برہم پتر میں، جو بنگلہ دیش میں ختم ہوتا ہے، برف پگھلنے سے بننے والا پانی 15 فیصد کم رہا۔

اس بین الحکومتی تنظیم سے وابستہ ماحولیاتی محقق مریم جیکسن نے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ''ممکنہ خشک سالی کے باعث پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے ابھی سے سرگرمی سے اقدامات کریں۔‘‘

ا ا / م م (اے ایف پی)