اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 جولائی 2024ء) پاکستان
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا ہے کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ
راحیل شریف نے مدت
ملازمت میں ایکسٹینشن مانگی تھی
،راحیل شریف نے ایکسٹینشن کیلئے تجاویز بھی دیں کہ پہلی یہ کہ تینوں چیفس کو ایکسٹینشن دے دیں، دوسری تجویز فیلڈ مارشل کے طور پر پروموٹ کردیں، پھر
پانامہ معاملے پر پیشکش آئی کہ ایکسٹینشن کو طے کردیں۔
انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ بات بالکل درست ہے کہ
راحیل شریف نے مدت
ملازمت میں ایکسٹینشن مانگی تھی یہ بات کوئی راز نہیں
راحیل شریف نے ایک سے زائد بار ذکر کیا
،ایدھی صاحب کا جنازہ تھا تو وہاں ہمارے لیڈر کوجنرل
راحیل شریف کی جانب سے کہا گیا ایکسٹینشن کے معاملے میں جلدی فیصلہ کریں، مطلب جنازہ تھا لیکن ان کو اپنی ایکسٹینشن بارے اتنی پریشانی تھی،اس پر میاں
نوازشریف نے پارٹی میٹنگ میں کہا کہ نوکری کا مسئلہ ہے تو اہتمام کردیتے ہیں، چیئرمین چیفس آف جوائنٹ کمیٹی کے عہدے پر تین سال کیلئے اوربیٹھ جائیں، لیکن
آرمی چیف کے طور پر نہیں۔
(جاری ہے)
راحیل شریف نے
میاں نواز شریف کو یہ بات خود کہی، میاں
نوازشریف کو رنج تھا کہ انہیں خود مجھے یہ بات نہیں کہنی چاہیئے تھی۔ جنرل (ر
)راحیل شریف نے ایکسٹینشن کیلئے راستے بھی تجویز کئے، ایک یہ کہ تینوں چیفس کو ایکسٹینشن دے دیں، پھر یہ نہیں ہوگا کہ صرف
راحیل شریف کو دی گئی، دوسری تجویز کہ فیلڈ مارشل کے طور پر پروموٹ کردیں اس کے ساتھ ہی تین سال کیلئے
آرمی چیف کی ایکسٹینشن ہوجائے گی، میاں
نوازشریف نے ان باتوں کو نہیں مانا پھر اس کے نتائج بھی بھگتے۔
پاناما کیس آیا تو پھر جنرل ر
راحیل شریف کی طرف سے پیشکش آئی کہ ایکسٹینشن کے معاملے کو طے کردیں پھر
پاناما جانے اور ہم جانے ،
پانامہ کو بھول جائیں، جس پر میاں
نوازشریف نے کہا کہ یہ
پاناما سے سزا پانے سے زیادہ بڑی ذلت ہے، پھر مارشل لاء کی دھمکیاں دی گئیں۔ جنرل ر باجوہ سے اس لئے چیزیں خراب ہوئیں کہ باجوہ کو کچھ چیزیں
پانامہ ، ڈان
لیکس ورثے میں ملا تھا، ادارے کا ماحول ویسا ہی تھا جو
راحیل شریف چھوڑ گئے تھے مطلب کردار سارے بیٹھے ہوئے تھے، اس لئے وہ بطور
آرمی چیف اس چنگل سے نکل نہیں سکے، ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ
وزیراعظم ہے اس کو پانچ سال تک چلنے دیں، لیکن باجوہ نے اپنے لئے آسان راستہ چنا۔
ڈان
لیکس کے معاملے پر میاں
نوازشریف نے خود بتایا کہ اب یہ کہتے ہیں
پرویز رشید کو نکال دیں، پھر کہا گیا فاطمی کو بھی نکال دیں، جبکہ خبرچلانا یا رکوانا کیا
پرویز رشید کا کام ہے؟ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟انہو ں نے کہا کہ میاں
نوازشریف بالکل غائب نہیں ہیں، میاں صاحب غائب ہوں گے تو بھی بات ہوگی غائب نہیں ہوں گے تو بھی ان پر بات ہوگی، وہ ہر حوالے سے حاضر موجود ہیں، میاں
نوازشریف جب سے باہر سے تشریف لائے ہیں اس کے بعد
الیکشن مہم شروع ہوگئی، ان کی صحت کے بھی ایشوز رہے جو کہ اب بھی ہیں، اب عملی صورتحال یہ ہے کہ میاں
نوازشریف کی جماعت کی
پاکستان پر حکومت ہے،
وزیراعظم شہبازشریف ہیں، اسی طرح سب سے بڑے صوبے
پنجاب پر ان کی حکومت ہے اور ان کی بیٹی وزیراعلیٰ ہے۔
اس لئے بولنے یا دکھائی دینے کا کام اپوزیشن میں ہوتا ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ میاں
نوازشریف معاملات سے الگ تھلگ ہیں ،ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں، معاملات کو طے کرتے ہیں،
محرم الحرام کے بعد میاں
نوازشریف دکھائی بھی دیں گے، عوامی رابطوں کا سلسلہ شروع کرنے والے ہیں، حال ہی میں ان کی پارلیمنٹرین کے ساتھ ملاقات ہوئی۔
دوٹوک الفاظ میں بتادو ں ،
نوازشریف کے
وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ صرف ایک شخص ہے اس کا نام
نوازشریف ہے، یہ فیصلہ اچانک انتخابی نتائج کے حوالے سے انہوں نے نہیں کیا، میں نے محسوس کیا کہ وہ شہبازشریف کو
وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں، میاں
نوازشریف انتخابی مہم کے دوران”
پاکستان کو نوازدو“ کے نعرے سے بھی زیادہ پرجوش نہیں تھے، ان کے الفاظ یاد ہیں وہ سمجھتے تھے اس کی بجائے کوئی دعائیہ جملہ ڈال دیا جائے، لیکن سب نے کہا کہ یہ جملہ زیادہ کیچی ہے۔
میاں
نوازشریف کے راستے کا پتھر کوئی نہیں تھا، کچھ لوگ سمجھتے کہ اسٹیبلشمنٹ یا کوئی اور رکاوٹ تھی ، تو ایسا نہیں ہے، ان کے راستے کی رکاوٹ کوئی بھی نہیں تھا۔ شہبازشریف کوتو وزارت عظمیٰ مشرف ،
راحیل شریف، باجوہ کے دور میں طشتری میں سجا کر آفر کی گئی، لیکن شہبازشریف نے بھائی سے بے وفائی نہیں کی۔