سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی میں معروف دانشور و مزاح نگار انور مقصود نے ’’قائداعظم کا کراچی کے نام آیا ہوا خط‘‘ پڑھ کر سنا دیا

محمد علی ٹرام وے، محمد علی بس سروس ان سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا، کون کون ان میں بیٹھا نظر نہیں آتا تھا، انور مقصود قائد بننے کے ایک سال بعد تیرے پاس نہیں رہا، صحت اچھی نہیں تھی اور میرے ساتھ سلوک بھی اچھا نہیں ہوا، وہ ہی سلوک میرے بعد کراچی تیرے ساتھ کیاگیا

پیر 9 دسمبر 2024 21:40

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 دسمبر2024ء) سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی میں معروف دانشور و مزاح نگار انور مقصود نے ’’قائداعظم کا کراچی کے نام آیا ہوا خط‘‘ پڑھ کر سنا دیا۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ ’’میرے کراچی تجھے یاد ہے سب سے پہلے میں نے کہا تھا کراچی پاکستان کا کیپٹل ہوگا، اس وجہ سے نہیں کہ میں یہاں پیدا ہوا تھا میرا تو مزار بھی یہی ہے، کراچی مجھے پسند تھا، مجھے اندازہ تھا اس شہر میں بسنے والے خیالات اور احساسات میں اس درجہ ہم آہنگی ہوگی جس کا فائدہ پاکستان کو پہنچے گا، مجھے معلوم تھا کہ یہ شہر پھیلے گا اور بڑا ہوگا ، آگے جائے گا، میں محسوس کرتا تھا وطن سے محبت کرنے والوں کی ہزاروں لاکھوں پگ گنڈیاں ہر جہت سے آکر اس عظیم شہر میں گم ہوجائیں گی، جس میں ہر مکتب فکر کے لوگ موجود ہوں گے، مختلف علاقوں میں رہنے والے مختلف بولیاں بولنے والے سب کراچی سے محبت کریں گے اور اس کو اپنا سمجھیں گے، یہ شہر پڑھے لکھوں سے بھرا ہوگا، کراچی تو ، تو میرا شہر تھا کھارا در میں میرا گھر ہے گرومندر کے قریب میرا مزار۔

(جاری ہے)

میرے مزار کی جگہ یہاں ایک بستی تھی ان لوگوں کو وہاں سے نکال دیا گیا اور شہر سے دور ان کو جگہ دے دی گئی، میرا مزار شہر سے دور لے جاتے تو بہت اچھا ہوتا ، میں آج اس بستی والوں سے شرمندہ ہوں، میرے مزار پر عبدالکلام آزاد آئے تھے تو جنگ اخبار میں رئیس امروہی نے لکھا تھا کہ قائد اعظم کا مزار عبدالکلام آزاد۔ میں تو تجھے روشنیوں سے بھرا چھوڑ کر آیا تھا میں نے دعا مانگی تھی کراچی کی روشنیاں ، اندھوں کو راستہ سمجھائیں ، لوگوں کو قوت گویائی عطا کریں ، سوئے ہوئے لوگوں کو جھنجھوڑ کر بے دار کریں ، قائد بننے کے ایک سال بعد تیرے پاس نہیں رہا، صحت اچھی نہیں تھی اور میرے ساتھ سلوک بھی اچھا نہیں ہوا، وہ ہی سلوک میرے بعد کراچی تیرے ساتھ کیاگیا، ’’صاف شفاف کراچی ‘‘ بہت سی سڑکیں رات کے وقت دھوئی جاتی تھیں ، فوج بیرکوں میں اور سرکاری افسر کوارٹروں یا چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے تھے، باتھ آئی لینڈ، کوئنز روڈ، ملیر ڈرگ روڈ ۔

سرکاری افسروں کو بسوں میں سفر کرتے دیکھا تھا اور بہادروں کو سائیکلوں پر۔میرے جانے کے بعد ایسا ہی ماحول رہا پھر ایوب خاں آگئے۔ان کو کراچی تجھ میں ہجرت بہت نظر آئی۔الطاف گوہر نے ایوب خاں سے کہاکہ سر ہجرت بڑھتی جائے گی ان لوگوں کو صرف آبادی بڑھانے کا بہت شوق ہے۔نیا دارالخلافہ بناتے ہیں ، محمد علی ٹرام وے، محمد علی بس سروس ان سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا، کون کون ان میں بیٹھا نظر نہیں آتا تھا۔

شاعر، مصور ایک صحافی، تنقید نگار، علمائے دین، گلوکار، پڑھنے اور پڑھانے والے مستور فقیر۔پی آئی بی کالونی سے کیماڑی بس جاتی تھی، سولجر بازار ، صدر سے ہوتے ہوئی ٹرام کیماڑی جاتی تھی، سب کچھ ٹھیک تھا، 25، 30سینما گھر تھے، آٹھ ، دس ہوٹل تھے، دوسرے شہروں سے ریل گاڑیاں بھری ہوئی آتی تھیں، آنے والے واپس نہیں جاتے تھے، کراچی تیری بانہیں ہر ایک کے لیے کھلی ہوئی تھیں، کراچی تو اس ملک کی ماں ہے، مجھے اندازہ نہیں تھا ایوب خان اتنی جلدی آجائیں گے، الطاف گوہر سول سرونٹ تھے تعلق پنجاب سے تھا، بہت ذہین، پڑھے لکھے تھے، وہ ہی ایوب خان کو ہر بات بتاتے تھے، ایک دن الطاف گوہر نے ایوب خان سے کہاکہ سر کیپٹل کراچی سے پنجاب کی طرف لے جائیں یہ شہر تو ہجرت کرنے والوں سے بھر ا ہوا ہے، پنجابی بولنے کو زبان ترس گئی ہے، نئے شہر کا نام رکھیں اسلام آباد ، ایوب خان مان گئے پاکستان کا کیپٹل اسلام آباد چلا گیا اور ساتھ ساتھ کراچی کا کیپٹل بھی اپنے ساتھ لے گیا، یہاں کیپٹل سے مراد پیسہ ہے۔

جو لوگ اسلام آباد نہیں گئے ان میں جوش، صادقین، محمد حسن عسکری، شاکر علی، جمیل الدین عالی، عزیز حامد مدنی، رئیس امروہی، جون ایلیا ،سید محمد جعفری، ابن انشاء، دلاور فگار، بشیر مرزا، احمد پرویز، شاہد سجاد، جمیل نقش، زہرا نگاہ، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، فاطمہ ثریا بجیا، احمد علی، خلیل الرحمن، نصر اللہ خان ، ابراہیم جلیس ، سلیم احمد، مجید لاہوری، علی امام ،اداجعفری و سلیم زماں صدیقی اور ہزاروں بڑے نام ہیں جن کے لیے کراچی سب کچھ تھاجب سیاسی جماعتیں بننا شروع ہوگئیں تو کراچی پھر تو بگڑنا شروع ہوگیا،قومی پرچم کی جگہ تیری شاہراہوں پر سیاسی جماعتوں کے پرچم نظر آنے لگے، بڑی بڑی عمارتیں اور بڑے بڑے مکانات بننے لگے، شہر مختلف شہروں میں بٹ گیا، سندھی ، پٹھان ،بلوچی اور مہاجر سب الگ ہوگئے، میرے مزار کی طرح 77سالوں سے تو خاموش ہے، تیری زمین بغیر بولی لگائے بکنے لگی، جو حکومت آئی اس نے تیری زمین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔

‘‘