Live Updates

منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے جج ٹرانسفر کیے گئے. منیراے ملک

ججوں کے تبادلے کی سمری کی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی‘ سمری میں غلطیاں حکومت کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں. درخواست گزارججوں کے وکیل کے دلائل جاری

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 30 اپریل 2025 15:27

منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے جج ٹرانسفر کیے گئے. ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 اپریل ۔2025 )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس میں درخواست گزار ججوں کے وکیل منیر اے ملک کے دلائل مکمل نہ ہو سکے، سینئر قانون دان منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ ججوں کے تبادلے کی سمری کی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی، وزارت قانون کی ججز ٹرانسفر کے لیے سمری میں بھی تضاد ہے، سمری میں غلطیاں حکومت کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں، طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے جج ٹرانسفر کیے گئے.

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف کیس کی سماعت کی آئینی بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس صلاح الدین پنہور شامل تھے درخواست گزار 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک نے آج بھی دلائل جاری رکھے منیر اے ملک نے کہا کہ آرٹیکل 20 کا ذیلی سیکشن ون اکیلا نہیں ہے، سیکشن ون کا آرٹیکل 200 کے سیکشن ٹو سے لنک ہے، جج کا تبادلہ ایگزیکٹیو ایکشن ہے، سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹو ججز تبادلے کا اختیار کیسے استعمال کرے گی.

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا تبادلے کا اختیار استعمال کرنے کے لیے ایگزیکٹو کے لیے کوئی شرط ہے؟ منیر اے ملک نے کہا کہ ایگزیکٹو کے ججز تبادلے کے اختیار کا جوڈیشل ری ویو ہو سکتا ہے، ججز تبادلے کی سمری وزارت قانون نے وزیر اعظم کو بھیجی، وزیر اعظم نے سمری پر صدر کو ایڈوائس کردی، ججز تبادلے کی سمری کی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی، آرٹیکل 9 نے وزیراعظم کو چیف ایگزیکٹیو ڈیکلیئر کیا ہے منیر اے ملک نے کہا کہ چیف ایگزیکٹو پالیسی بناتا ہے اور اس پر عملدرآمد ہوتا ہے، وزیراعظم وزیر قانون کو مجلس شوریٰ سے مشورے کے بعد تعینات کرتا ہے.

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ جس رول 60 کا آپ ذکر کر رہے ہیں اس کا تعلق ٹرانسفر سے تو نہیں ہے، منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 90 نے یہ اختیار چیف ایگزیکٹو آفیسر کو دیا ہے جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا آپ آج اپنے دلائل ختم کر لیں گے؟ منیر اے ملک نے کہا کہ آج نہیں کر سکوں گا، کوشش کروں گا کہ آئندہ سماعت پر دلائل ختم کر لوں جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے آپ آج ختم کریں گے تو پیر سے کسی اور وکیل کے دلائل شروع ہو سکیں گے بینچ کے ایک رکن نے کراچی کے لیے روانہ ہونا ہے، اس لیے ہم نے ساڑھے 9 بجے کیس رکھا ہے کل یکم مئی کی چھٹی ہے اس لیے کل اور پرسوں کیس نہیں رکھ سکتے پیر کو ملٹری کورٹس کیس کی حتمی سماعت ہونی ہے.

منیر اے ملک نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وزارت قانون کی ججز ٹرانسفر کے لیے سمری میں بھی تضاد ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو سیکریٹری قانون نے لکھا کہ کوئی سندھ کا جج نہیں، چیف جسٹس پاکستان کو بھی لکھا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سندھ سے کوئی جج نہیں جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ہائیکورٹ کی جج جسٹس ثمن رفعت کا تعلق سندھ سے ہے؟ ان کا تعلق کراچی سے ہے جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے کہ پہلی جو سمری تیار ہوئی اس میں اندرون سندھ کا ذکر تھا، یہ انجانے میں کی گئی غلطی ہوسکتی ہے کہ اندرون سندھ کے بجائے سندھ لکھا گیا، کراچی کو تو اندرون سندھ سے الگ ہی لکھا جاتا ہے.

منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ سمری میں غلطیاں حکومت کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں دوران سماعت منیر اے ملک نے قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا عدالتی امور سے متعلق صدر کو آزادانہ مائنڈ اپلائی کرنا چاہیے، ججز ٹرانسفر کی سمریوں سے عیاں ہوتا ہے صدر مملکت اور وزیراعظم نے ایک ہی دن منظوری دی، ججز ٹرانسفر کے لیے سمری عدلیہ کے ذریعے نہیں بجھوائی گئی، ججز ٹرانسفر سے قبل عدلیہ میں مشاورت نہیں ہوئی.

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ججز ٹرانسفر کے لیے تین چیف جسٹس صاحبان نے رضامندی کا اظہار کیا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بہت تفصیل کے ساتھ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیڈرل ازم پر بات کی منیر اے ملک نے کہا کہ جب سمری بجھوائی گئی اس وقت حلف یا سینیارٹی کا ذکر نہیں تھا، سمری کی منظوری کے بعد نوٹیفیکیشن میں کہا گیا نئے حلف کی ضرورت نہیں جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن میں آرٹیکل 200 کا حوالہ دیا گیا، ججز کی آپس میں مشاورت ضرور ہوئی ہوگی، ججز ٹرانسفر کے نوٹیفکیشن میں آرٹیکل 200 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ حلف کا لکھا نہیں ہوا.

منیر اے ملک نے کہا کہ ٹرانسفر کی وجوہات میں لکھا گیا پنجاب میں متناسب نمائندگی کے اصول کو سامنے رکھ کر ایسا کیا جا رہا ہے، کہا گیا پنجاب سے صرف ایک جج اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس عامر فاروق، جسٹس بابر ستار اور جسٹس اعجاز اسحاق خان پنجاب کے ڈومیسائل سے ہیں، طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کے لیے ججز ٹرانسفر کیے گئے. بعد ازاں عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیخلاف کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کردی، درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک آئندہ سماعت پر بھی دلائل جاری رکھیں گے.
Live پہلگام حملہ سے متعلق تازہ ترین معلومات