Live Updates

پاکستان کا سائبر کرائم قانون، اختلافی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 23 مئی 2025 17:00

پاکستان کا سائبر کرائم قانون، اختلافی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مئی 2025ء) انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نئے سائبرکرائم قانون کو تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے خاص طور پر صحافیوں کو۔

رواں سال جب سے پاکستان نے آن لائن مواد پر قدغن لگانے کے لیے قوانین کو مزید سخت کرنا شروع کیا انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں اور ڈیجیٹل حقوق کے حامیوں کی طرف سے پاکستان میں آزادئی صحافت کے بارے میں نئے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ترمیم شدہ ''پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ‘‘ (PECA) کے تحت جھوٹی معلومات کو جان بوجھ کر آن لائن پھیلانا جرم ہے جو معاشرے میں خوف، گھبراہٹ یا بدامنی کو بھڑکا سکتی ہے۔

اس قانون کے تحت حکام کو ممکنہ طور پر وسیع تر اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین کے خلاف غلط معلومات پھیلانے پر تین سال تک قید اور 2 ملین روپے تک کے جرمانے کی اجازت مل جانے کے بارے میں صحافی پریشان ہیں۔

(جاری ہے)

PECA کے تحت صحافیوں کی حراست

پی ای سی اے کی قانون سازی کے چند ماہ بعد صحافیوں فرحان ملک اور وحید مراد کو حراست میں لے لیا گیا۔

سعودی عرب کے ملکیتی روزنامہ اردو نیوز کے رپورٹر مراد کو مبینہ طور پر ''آن لائن غلط معلومات‘‘ پھیلانے کے الزام میں راتوں رات ان کی رہائش گاہ پر چھاپا مار کر گرفتار کر لیا گیا تھا۔

وحید مراد نے ڈی ڈبلیو کو بیان دیتے ہوئے کہا، ''اس طرح قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے پہلے ہی انہیں اٹھا لیا جاتا ہے۔ میرے کیس میں بھی یہی طریقہ کار اپنایا گیا۔‘‘

پاکستان کے ایک انٹرنیٹ میڈیا چینل ''رفتار‘‘ کے بانی فرحان ملک کو بھی اسی طرح ''غلط معلومات پھیلانے اور تشدد کو ہوا دینے کے لیے ریاست مخالف اشاعتوں اور ویڈیوز بنانے اور پھیلانے‘‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ملک کے وکیل عبدالمعیز جعفری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان پر جن دو مقدمات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی ان میں سے ہر ایک کے لیے 100,000 روپے کی پیشکش کے بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

ان دونوں صحافیوں نے پاکستان کی طاقتور فوج کے مبینہ کردار کے بارے میں رپورٹنگ کی تھی۔ پاکستانی فوج ملک کی 77 سالہ تاریخ میں ایک طویل عرصے تک براہ راست حکمران رہی ہے۔

یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس پر بہت سے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ احتیاط سے کام لیتے ہوئے اس پر تنقید کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

مشاورت کا فقدان

ایمان مزاری، ایک وکیل اور ایکٹیوسٹ ہیں، جنہوں نے حال ہی میں PECA قوانین کے تحت الزامات عائد کیے گئے متعدد صحافیوں اور کارکنوں کی نمائندگی کی، کہتی ہیں، ''ہم نے PECA کی ترامیم کے نفاذ کے ساتھ بنیادی طور پر صحافیوں اور مخالفین کے خلاف اقدامات ہوتے دیکھا ہے۔

‘‘

مزاری نے مزید کہا، ''ریاست مین اسٹریم میڈیا پر اپنے مکمل کنٹرول سے مطمئن نہیں ہے اور اس لیے سوشل میڈیا کو دبانے کی اس کی بے چینی اور کوتاہ بینی ظاہر ہو رہی ہے۔‘‘

سائبر کرائم کے قانونی ماہر اسامہ ملک نے پی ای سی اے کے قوانین کو ''ڈریکونین یا سفاکانہ ‘‘ قرار دیا ہے۔

بیانیے کا کنٹرول

سحرش قریشی، اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کی جوائنٹ سیکرٹری، جو ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ پریس کی آزادی کی وکالت بھی کرتی ہیں، PECA کے بارے میں کہتی ہیں،''یقیناً، یہ قانون ریاستی بیانیے پر تنقید کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

آپ حکومتی اقدامات پر سوال بھی نہیں اٹھا سکتے، آپ کو خاموش کر دیا جائے گا اور اگر آپ بولیں گے تو پولیس آپ کو اٹھا لے گی۔‘‘

ماہر قانون ملک کا ماننا ہے کہ نام نہاد ''ڈیپ اسٹیٹ‘‘ جس سے مراد ملک کی طاقتور فوج ہے، جزوی طور پر پی ای سی اے قوانین کے ذریعے بیانیے کو کنٹرول کر رہی ہے۔'' ڈیپ اسٹیٹ کے لیے ایسے صحافیوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا ہے جو یوٹیوب کو اپنے خیالات کو پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

‘‘ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ خاص طور پر پاکستان سے باہر کام کرنے والے یوٹیوب تخلیق کاروں کا معاملہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا ، ''ریاست ان کے خاندان کے افراد کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتی ہے جو پاکستان میں رہتے ہیں۔‘‘

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات