پاکستان کا غزہ میں بندی، خوراک اور ادویات کی فراہمی یقینی بنانے پر زور

غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی، خوراک اور ہسپتالوں میں ایندھن کی رسائی یقینی بنائی جائے،پاکستان کا مطالبہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 17 جولائی 2025 16:03

پاکستان کا غزہ میں بندی، خوراک اور ادویات کی فراہمی یقینی بنانے پر ..
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 جولائی ۔2025 ) اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے غزہ میں امداد اور ایندھن کی فراہمی یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا قحط سے دوچار غزہ کو مزید برداشت نہیں کر سکتی، غزہ میں بھوک کے باعث فلسطینیوں کی اموات ہو رہی ہیں جبکہ انہوں نے قرضوں کی ادائیگی کے بحران سے دوچار ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی گنجائش بڑھانے اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے فنڈنگ پر بھی زور دیا ہے.

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مشرق وسطی کی صورتحال پر ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا عاصم افتخار نے کہاکہ اسرائیلی قبضے کا خاتمہ امن کے لئے ضروری ہے، فلسطینی قیدیوں کی فوری رہائی عمل میں لائی جائے، فلسطین ریاست کیلئے فرانس اور سعودی عرب کی کانفرنس میں مثبت نتائج کی امید ہے. انہوں نے کہا کہ غزہ میں موجودہ امدادی نظام ان لوگوں کو ناکام کر رہا ہے جن کی خدمت کا دعوی کرتا ہے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق، مئی کے آخر سے اب تک امداد سے جڑے 798 افراد شہید کیے جا چکے ہیں جن میں سے 615 امدادی مراکز یا ان کے قریب مارے گئے پاکستان کے مستقل مندوب کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام مجبور فلسطینیوں کو فعال جنگی علاقوں میں دھکیل دیتا ہے تاکہ وہ بنیادی ضروریات حاصل کر سکیں، انہوں نے کہا کہ جو امداد غزہ پہنچی ہے وہ نہایت قلیل ہے، اس کا نفاذ ناقص ہے، اور یہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا بدترین بات یہ ہے کہ یہ نظام خود موت کا جال بن چکا ہے.

پاکستانی مندوب نے کہا کہ زندگی بچانے والی امداد، خاص طور پر بچوں کے لیے دودھ کی فراہمی کی بندش ناقابلِ دفاع سطح تک پہنچ چکی ہے، نومولود بچے بھوک سے فوری موت کے خطرے میں ہیں ایسی محرومی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہو سکتی اس لیے ضروری اشیا کی بلا رکاوٹ ترسیل کو فوری ممکن بنایا جائے عاصم افتخار کاکہنا تھا کہ غزہ میں ادویات، پناہ گاہوں اور ایندھن کی شدید قلت بڑھ رہی ہے جس سے ہسپتالوں، پانی و صفائی کے نظام، ٹیلی کمیونیکیشن، بیکریوں، ایمبولینسوں اور امدادی کاموں کا بند ہونا یقینی ہے 21لاکھ کی آبادی کے لیے یہ ایک تباہ کن نکتہ ہے انہوں نے زور دیا کہ ایندھن، طبی امداد اور پناہ گاہوں کے سامان کو فورا غزہ میں داخلے کی اجازت دی جائے.

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ امدادی نظام ایک خطرناک نظیر قائم کر رہا ہے، اقوام متحدہ کے غیر جانبدار امدادی نیٹ ورک کی جگہ، ایک عسکری اور منتخب نظام دینا انسانی قانون کی بنیادی اقدار اور غیرجانبداری کو نقصان پہنچاتا ہے اس کے اثرات صرف غزہ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ مستقبل کے تنازعات میں بھی شہریوں کی حفاظت خطرے میں ڈال دیں گے. دریں اثناءعاصم افتخار احمد نے SDG7 توانائی کی پیشرفت کی رپورٹ 2025 اور پالیسی بریفز برائے ہائی لیول پولیٹیکل فورم 2025 کے اجرا کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مالی وسائل کی کمی ترقی پذیر دنیا کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت کو محدود کر رہی ہے یہ ایونٹ گروپ آف فرینڈز آن سسٹین ایبل انرجی کے شریک میزبانوں نے پاکستان، ناروے، ایتھوپیا اور ڈنمارک کے مستقل مشنز کے ساتھ مل کر منعقد کیا تھا.

سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ 2024 میں پاکستان میں تقریبا 4 کروڑ افراد کو بجلی تک رسائی حاصل نہ تھی ہم صاف توانائی کے اہداف کے لیے پرعزم ہیں ہمارا ہدف ہے کہ 2030 تک 60 فیصد بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کی جائے ہمارا توانائی منصوبہ 13 گیگاواٹ نیا ہائیڈرو پاور شامل کرنے کا ہے، جبکہ نیوکلیئر انرجی بھی قابلِ اعتماد اور کم کاربن بیس لوڈ فراہم کر رہی ہے.

اقوام متحدہ کی مختلف رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اگرچہ پائیدار ترقی کے ہدف 7 (SDG7) کے حصول کی طرف پیش رفت ہوئی ہے، لیکن یہ اب بھی غیر مساوی ہے اور دنیا بھر میں 675 ملین سے زائد افراد اب بھی بجلی سے محروم ہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ساتھ توانائی تک رسائی کا خلا پر کرنا ہوگا، توانائی کے نظام کو ڈی کاربنائز کرنا ہوگا اور کارکردگی میں اضافہ کرنا ہوگا اور یہ سب کچھ مساوی، منصفانہ اور جامع طریقے سے ہونا چاہیے.

انہوں نے دنیا پر زور دیا کہ وہ 2030 تک توانائی اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کے لیے سالانہ 4.3 ٹریلین امریکی ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرے انہوں نے واضح کیا کہ اس تناظر میں ترقی پذیر ممالک کے لیے عوامی صاف توانائی کی فنانسنگ صرف 21.6 ارب امریکی ڈالر ہے، جس میں سے 83 فیصد قرضوں پر مشتمل ہے. انہوں نے کہا کہ صاف توانائی کی سرمایہ کاری زیادہ تر ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں کی جا رہی ہے اورترقی پذیر ممالک کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے انہوں نے مسئلے کا حل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی روڈ میپ پر گنجائش بڑھائی جائے ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک میں ادارہ جاتی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور صاف توانائی کی سرمایہ کاری کے لیے خطرات کم کرنے کے طریقے اپنائے جائیں.

مستقل مندوب نے کہا کہ ایسے توانائی حل تیار کیے جائیں جو دیگر فوائد بھی فراہم کریں، جیسے پاکستان میں سیلاب کے بعد سولر کٹس کی تقسیم، جس سے بجلی کی بحالی، نقل و حرکت، صحت اور موسمیاتی نتائج بہتر ہوئے انہوں نے بیان کے اختتام پر کہا کہ عالمی توانائی کی منتقلی بلاشبہ جاری ہے لیکن اگر اس کے لیے منصوبہ بندی اور ہدفی بین الاقوامی مدد فراہم نہ کی گئی تو یہ غیر مساوی اور منقسم ہو سکتی ہے اس لیے سمت درست کریں اور ایسی صاف توانائی کی منتقلی یقینی بنائیں جو کسی کو پیچھے نہ چھوڑے.