اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مئی 2025ء) ایران اور امریکہ کے مابین جوہری مذاکرات کا پانچواں دور جمعے کے روز روم میں منعقد ہوا۔ ان مذاکرات میں کسی بڑی پیش رفت کی اطلاع نہیں ملی تاہم دونوں فریقوں نے ملاقات کو ''تعمیری‘‘ قرار دیا اور مذاکرات جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کی۔
خیال رہے کہ یہ مذاکرات خلیجی عرب ریاست عمان کی ثالثی میں جاری ہیں۔
یورینیم کی افزودگی کا مسئلہ
مذاکرات میں بنیادی رکاوٹ ایران کی یورینیم کی افزودگی کی پالیسی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا خیال ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے، جبکہ ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن اور شہری مقاصد کے لیے ہے۔
(جاری ہے)
مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف، جو مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت کر رہے ہیں، نے واضح کیا ہے کہ واشنگٹن ایران کو افزودگی کی ''ایک فیصد گنجائش‘‘ بھی نہیں دے سکتا۔
اس کے برعکس ایران کے وزیر خارجہ و اعلیٰ مذاکرات کار عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''صفر جوہری ہتھیار = معاہدہ ممکن، صفر افزودگی = معاہدہ ناممکن۔‘‘ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مذاکراتی دور ''ریڈ لائنز‘‘ کے مابین تصادم کا منظر پیش کرتا رہا۔ عالمی امور پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک سینٹر فار انٹرنیشنل پالیسی سے وابستہ سینا طوسی نے کہا کہ مذاکرات کے اس دور میں فریقین کے عوامی موقف ایک دوسرے سے مکمل ٹکرا رہے تھے۔
ایران اس وقت دنیا کی واحد غیر جوہری ریاست ہے جو 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہی ہے، جو کہ 2015 کے معاہدے میں طے کردہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے مگر اب بھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے درکار افزودگی کی 90 فیصد شرح سے کہیں نیچے ہے۔
امریکی پابندیاں
2015 کا جوہری معاہدہ اس وقت ناکام ہوا تھا، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کو اس سے یکطرفہ طور پر نکال لیا تھا۔
ایران کا اصرار ہے کہ بات صرف جوہری پروگرام اور امریکی پابندیوں کے خاتمے تک محدود رہے، اور وہ واشنگٹن کے ''غیر معقول مطالبات‘‘ اور ''متضاد بیانات‘‘پر تنقید کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ عراقچی نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ تضادات جاری رہے، تو مذاکرات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
اس دوران امریکہ نے ایران پر نئی پابندیاں بھی عائد کی ہیں، جن میں تعمیراتی شعبے اور تیل اور گیس کے شعبوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ان اقدامات کو امریکی سفارت کاری کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان قرار دیا ہے۔دو طرفہ اعتماد کی کمی
دونوں فریقوں کے مابین جاری مذاکرات اس وقت خطے میں اعلیٰ سطح کی سفارت کاری کے مظہر ہیں۔ یہ اس وقت شروع ہوئے، جب مارچ میں صدر ٹرمپ نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے معاہدے پر زور دیا تھا، لیکن ساتھ ہی فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دی تھی۔
ایرانی فوج کے سربراہ محمد باقری نے جمعے کے روز خبردار کرتے ہوئے کہا تھا، ''خطے میں امریکہ کی کوئی بھی غلطی ویت نام اور افغانستان جیسی ہو گی۔‘‘ دریں اثنا ایرانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات پر کوئی حملہ کیا، تو امریکہ بھی اس کا ذمہ دار ہوگا۔
امریکی میڈیا کے مطابق مذاکرات سے قبل امریکی ایلچی وٹکوف نے اسرائیلی حکام سے ملاقات بھی کی تھی، جب کہ ایرانی قدامت پسند اخبار ''کیہان‘‘نے لکھا، ''ٹرمپ اور نیتن یاہو کی ہم آہنگی مذاکرات کو بند گلی کی طرف دھکیل رہی ہے۔‘‘