سنی اتحاد کونسل مخصوص نشتوں کی حقدار نہیں.سپریم کورٹ آئینی بینچ کے ریمارکس

الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تھی، نشستیں دینا نہ دینا اور مسئلہ ہے، الیکشن کمیشن کا کردار بھی دیکھنا تھا. جسٹس جمال خان مندوخیل

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 26 مئی 2025 15:16

سنی اتحاد کونسل مخصوص نشتوں کی حقدار نہیں.سپریم کورٹ آئینی بینچ کے ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 26 مئی ۔2025 )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟ جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہوسکتے ہیں؟ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشتوں کی حقدار نہیں.

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے پہلی مرتبہ براہ راست نشر کی جانے والی سماعت میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستیں سنیں درخواست گزار وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر کیسے دعوی کیا؟ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟ پارلیمنٹ میں آنے والی جماعت میں آزاد امیدوار شامل ہوسکتے ہیں جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہوسکتے ہیں؟ آزاد ارکان نے جیتی ہوئی پارٹی میں شامل ہونا تھا.

مخدوم علی خان نے موقف اپنایا سنی اتحاد کونسل کے مطابق آزاد امیدوار ان کی ساتھ شامل ہوگئے تھے جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے انتحابات میں حصہ لیا تھا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا سنی اتحاد کونسل نے بطور جماعت الیکشن لڑا ہی نہیں جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشتوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت بن سکتی تھی لیکن مخصوص نشستوں کے حقدار نہیں.

مخدوم علی خان نے کہا سنی اتحاد کونسل کی اپیل کو متفقہ طور پر مسترد کیا گیا، مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا، ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے قبل کوئی نوٹس نہیں کیا گیا جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا، عدالت کے سامنے الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن تھا مخدوم علی خان نے کہا کہ نوٹیفیکیشن سے اگر کوئی متاثرہ ہوتا تھا تو عدالت کو نوٹس کرنا چاہیے تھا، عدالتی فیصلے میں آرٹیکل 225 کا ذکر تک نہیں ہے، آرٹیکل 225 کے تحت کسی الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 225 کا اس کیس میں اطلاق کیسے ہوتا ہے؟.

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ مخصوص نشستوں کا معاملہ تھا، مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی پر الاٹ ہوتی ہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن سے قبل جمع ہوتی ہیں، کاغذات نامزدگی پر غلطی پر معاملہ ٹریبونل کے سامنے جاتا ہے جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کی دلیل مان لیں تو پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں تھا، مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت تک مخصوص ارکان کے نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوئے تھے، عدالتی فیصلہ موجود ہے کہ آئین و قانون سے برعکس فیصلہ ناقص ہوگا، عدالت کی ذمہ داری ہے اس غلطی کو درست کیا جائے.

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اگر اکثریتی ججز یہ سمجھیں کہ فیصلہ درست ہے، نظر ثانی درست نہیں، ایسی صورتحال بنے تو کیا ہوگا؟ مخدوم علی خان نے کہا ایسی صورت میں نظر ثانی مسترد ہو جائے گی دوران سماعت جسٹس شاہد بلال نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق تھی؟ کیا جو جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں دی جاسکتی ہیں؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ جو سیاسی جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں نہیں مل سکتیں، جسٹس یحیی آفریدی نے کہا تھا پی ٹی آئی کیس میں فریق نہیں تھی.

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس وقت الیکشن کمیشن کے کردار کو بھی ہم نے دیکھنا تھا میرے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تھی، نشستیں دینا نہ دینا اور مسئلہ ہے، الیکشن کمیشن کا کردار بھی دیکھنا تھا جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میرے فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈکلیئر کرکے نشستیں دینے کا کہا گیا تھا کوئی فارمولا نہیں تھا کہ درمیان کا راستہ چنا جائے، میں نے ساری رات جاگ کر دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا، دستیاب ریکارڈ کے مطابق پارٹی سرٹیفکیٹ اور پارٹی وابستگی کے خانے میں 39 لوگوں نے پی ٹی آئی لکھا مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ اکثریتی فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈکلیئر کیا گیا 41 لوگوں کو وقت دیا گیا کہ وہ 15 دن میں کسی سیاسی جماعت کو جوائن کریں جسٹس نعیم افغان نے اکثریتی فیصلے سے متعلق لکھا کہ آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کیا جاسکتا، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی لکھا کہ ٹائم لائن کی قانونی شرائط پوری کرنا لازمی ہے.

مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 187 کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے مکمل انصاف آئین کی ایک شق ہے جس میں سپریم کورٹ کسی تنازع پر مکمل انصاف کرتی ہے، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرکے تیسرے فریق کو جو عدالت کے سامنے نہ ہو ریلیف نہیں دیا جاسکتا جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے یہ سپریم کورٹ ہے سول کورٹ نہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ کل کو یہ عدالت مالک مکان اور کرایہ دار کے تنازع پر مکمل انصاف کرکے تیسرے فریق کو ریلیف دے؟ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ کرایہ دار اور مالک مکان کا تنازع ذاتی نوعیت کا ہے، یہاں عوام کے حق رائے دہی کا معاملہ تھا، مخدوم علی خان نے کہا اپنے اقلیتی فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرنا خطرناک ہوسکتا ہے.

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مکمل اختیار اہم معاملہ ہے، احتیاط سے استعمال کیا جائے مخدوم علی خان نے کہا کہا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مکمل انصاف کا اختیار مجوزہ طریقہ کار کو ختم کرسکتا ہے دوران سماعت جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ انتخابی نشان نہ ہونے سے سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی، سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑتی امیدوار لڑتے ہیں، انتخابی نشان عوام کی آگاہی کے لیے ہوتا ہے، انتخابی نشان نہ ہونے سے کسی کو انتخابات سے نہیں روکا جاسکتا، سنی اتحاد کونسل کے بجائے آزاد امیدوار اگر پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا، سنی اتحاد کونسل اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتی تو پھر بھی مسئلہ نہ ہوتا.

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس میں کہا کہ پریزائیڈنگ افسران نے فارم 33 درست طریقے سے نہیں بنائے آئین کے آرٹیکل 185 میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ مخدوم علی خان نے کہا یہ عدالت ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے دائرہ اختیار میں تھی، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا کیس بنیادی دائرہ اختیار جو کہ 184/3 کا ہے جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار کس حد تک استعمال کر سکتی ہے جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ مخدوم علی خان صاحب مجھے سمجھنے میں مسئلہ آرہا ہے، سنی اتحاد کونسل تو ایک نشست بھی نہیں جیت سکی تھی سنی اتحاد کے چیئرمین حامد رضا نے تو خود اپنی جماعت سے الیکشن نہیں لڑا تحریک انصاف تو فریق بھی نہیں تھی پھر کیسے نشستیں دی جاسکتی ہیں؟.

مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ اکثریتی فیصلے میں مکمل انصاف کے ساتھ نظریہ آئینی وفاداری بھی استعمال کیا گیا، آئین سے وفاداری کے نظریے کی بات جذباتی لگتی ہے جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کیا پشاور ہائیکورٹ یا الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی نے نوٹیفکیشن چیلنج کیے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے نوٹیفکیشن چیلنج نہیں کیے تھے مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے میں آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا، نظرثانی درخواستیں منظور کی جائیں، نظرثانی کیس میں عدالت اپنی رائے تبدیل کر سکتی ہے.

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا میں مخصوص نشستوں کے کیس کا اپنا فیصلہ بدل سکتا ہوں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بالکل آپ اپنی رائے بدل سکتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پٹھان کی ایک زبان ہوتی ہے مخدوم علی خان نے کہا کہ زبان ایک ہوتی ہے مگر رائے تو بدل سکتے ہیںمخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اپنے تحریری دلائل جمع کرا چکے ہیں مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ ہم نے بھی تحریری دلائل جمع کرا دیے ہیں، پیپلز پارٹی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ پیپلزپارٹی کل تحریری دلائل جمع کرا دے گی.

سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ تحریری جوابات جمع کرا کے یہ جواب الجواب کا حق ختم کر چکے ہیں جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم جواب الجواب دیں گے جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت نے طے کرنا ہے کہ جواب الجواب کا حق دینا ہے یا نہیں، کل سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی دلائل دیں گے، عدالت نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی ہے.