موسمیاتی آفات کے نقصانات سابقہ اندازوں سے دس گنا زیادہ، یو این رپورٹ

یو این بدھ 28 مئی 2025 04:00

موسمیاتی آفات کے نقصانات سابقہ اندازوں سے دس گنا زیادہ، یو این رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 28 مئی 2025ء) دنیا بھر کے ممالک قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں تاہم، اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ حقیقی نقصان گزشتہ اندازوں سے 10 گنا زیادہ ہے جس کے صحت، رہائش، تعلیم اور روزگار پر دوررس منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان میں کمی لانے کے اقدامات پر اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ڈی آر آر) کی نئی رپورٹ کے مطابق، موجودہ اندازوں کے مطابق زلزلوں، تودے گرنے اور سیلاب سے سالانہ 200 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

تاہم، ادارے میں موسمیاتی آفات کے عالمگیر نقصان کا تجزیہ کرنے والے شعبے کی سربراہ جینٹی کیرش وڈ نے کہا ہے کہ حقیقی نقصان اس سے کہیں زیادہ اور تقریباً 2.3 ٹریلین ڈالر کے مساوی ہے۔

(جاری ہے)

Tweet URL

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ دنیا پائیدار ترقی کے لیے پیش رفت کو قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کا درست اندازہ لگانے میں ناکام ہے۔

نقصانات میں دو گنا اضافہ

'یو این ڈی آر آر' کے مطابق، دو دہائیوں میں موسمیاتی آفات سے ہونے والے نقصان میں دو گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی برادری کے لیے پائیدار سرمایہ کاری کے ذریعے مستقبل کی آفات سے بہتر طور پر نمٹنے اور ترقیاتی وسائل پر بوجھ میں کمی لانےکے لیے باہمی تعاون کیونکر ممکن ہے۔

کیرش وڈ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی حادثات سے ہونے والے بیشتر نقصان کو روکا جا سکتا ہے۔

مستقبل میں تمام ممالک کو اپنے مالیاتی نظام بہتر طور سے ہم آہنگ کرنے اور سرکاری و نجی سرمایہ کاری کے ذریعے یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ایسے حادثات کی صورت میں حکومتوں پر زیادہ بوجھ نہ آئے۔

2014 اور 2023 کے درمیان دنیا بھر میں تقریباً 240 ملین لوگوں کو موسمیاتی آفات کے نتیجے میں اندرون ملک نقل مکانی کرنا پڑی۔ چین اور فلپائن میں 40 ملین لوگ بےگھر ہوئے جبکہ انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان میں یہ تعداد 10 تا 30 ملین رہی۔

موسمی شدت کے واقعات اور ان کے نتیجے میں ممالک پر آنے والے قرضوں کے بوجھ سے ہونے والا نقصان ترقی پزیر ممالک اور کمزور آبادیوں کو غیرمتناسب طور سے متاثر کرتا ہے۔

کمزور ممالک کے بدترین حالات

2023 میں شمالی امریکہ میں موسمیاتی آفات کے نتیجے میں 69.57 ارب ڈالر کا براہ راست نقصان ہوا جو کسی بھی دیگر خطے کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھا لیکن یہ شمالی امریکہ کی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کا محض 0.23 فیصد تھا۔

اس سے برعکس میکرونیشیا میں موسمیاتی آفات نے صرف 4.3 ارب ڈالر کا نقصان کیا لیکن یہ اس کے جی ڈی پی کا 46.1 فیصد بنتا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے المناک نقصان کی عکاسی کرتی ہے جس سے کمزور لوگ بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ رپورٹ ایسے نقصانات پر قابو پانے کے لیے دنیا کی سمت کے بارے میں بھی آگاہ کرتی ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موسمیاتی بحران میں شدت آنے کے ساتھ موسمی آفات سے ہونے والا نقصان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ قدرتی آفات سے لاحق خطرات میں کمی لانے اور ان کی روک تھام پر سرمایہ کاری کو بڑھانے اور اسے پائیدار بنانے سے اس رجحان کو سست کر کے معاشی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح زندگیوں اور روزگار کو تحفظ ملے گا اور پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔

تباہ کن سیلاب

کیرش وڈ نے کہا ہے کہ 1990 میں پیدا ہونے والے کسی فرد کے اپنی زندگی میں انتہائی تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنے کا امکان 63 فیصد ہے جبکہ 2025 میں پیدا ہونے والے بچے کے لیے یہ امکان 85 فیصد تک بڑھ جائے گا۔ موسمی شدت کے ایسے واقعات دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ شدید موسم سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے محض تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کو دیکھنا کافی نہیں بلکہ آئندہ برسوں تک صحت، تعلیم اور مواقع کا نقصان مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔

ناپائیدار امدادی اقدامات

ہنگامی موسمی حالات صحت، تعلیم اور مواقع پر بری طرح اثرانداز ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملکی قرضہ بڑھ رہا ہے اور بحالی سست روی کا شکار ہے جبکہ معاشی اعتبار سے کمزور ممالک میں حالات کہیں زیادہ خراب ہیں۔

انہوں نے کہا ہےکہ ان حالات میں تواتر سے آنے والے شدید موسمیاتی دھچکوں کے مقابل امدادی اقدامات ناپائیدار ہوتے ہیں۔

نجی شعبے کا کردار

سیلاب سے محفوظ رکھنے والے ڈھانچے کی تعمیر اور قدرتی آفات سے بروقت آگاہی دینے کے نظام کی بدولت ایسے ممالک کو موسمیاتی حوادث سے بڑھتے نقصانات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو ان واقعات سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ 'یو این ڈی آر آر' کے سربراہ کمال کشور نے کہا ہے کہ خطرات میں کمی لانے اور استحکام پیدا کرنے کے اقدامات پر سرمایہ کاری کو بڑھا کر موجودہ صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ جب دریاؤں کے کناروں پر رہنے والی آبادیوں کو زمین کے استعمال سے متعلق منصوبہ بندی کے لیے درکار سائنسی ذرائع اور سیلاب سے تحفظ دینے کے نظام تعمیر کرنے کے لیے درکار وسائل تک رسائی ہوتی ہے تو وہ ناصرف نقصانات میں کمی لا سکتی ہیں بلکہ خوشحالی اور پائیدار ترقی کے لیے سازگار حالات بھی پیدا کر سکتی ہیں۔

'یو این ڈی آر آر' نے واضح کیا ہے کہ نجی شعبے کو قدرتی آفات سے تحفظ کے معاملے میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا جن کے باعث بہت سے ممالک متواتر تباہی کے بدترین ہوتے چکر میں پھنسے رہ جاتے ہیں۔