پاکستان: 14 لاکھ افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی دوبارہ شروع

DW ڈی ڈبلیو پیر 4 اگست 2025 20:20

پاکستان: 14 لاکھ افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی دوبارہ شروع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اگست 2025ء) یہ فیصلہ تقریباً 14 لاکھ افغان مہاجرین کو متاثر کرتا ہے، جو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی طرف سے جاری کردہ پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈز رکھتے ہیں اور جن کی قانونی حیثیت جون کے آخر میں ختم ہو چکی ہے۔ بہت سے مہاجرین کو امید تھی کہ انہیں ذاتی معاملات، جیسے جائیداد فروخت کرنے یا کاروبار مکمل کرنے کے لیے ایک سال کی توسیع ملے گی۔

مہاجرین کے خلاف کارروائیاں

پی او آر کارڈ ہولڈرز کے ساتھ ساتھ تقریباً آٹھ لاکھ مہاجرین کے پاس افغان سٹیزن کارڈز ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ افراد بھی غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم ہیں اور انہیں پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں بے دخلی سے قبل حراست میں لیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

پیر کے اس فیصلے پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے بھی شدید تنقید کی ہے۔

یو این ایچ سی آر کی جون کی رپورٹ کے مطابق رواں سال ایران اور پاکستان سے 12 لاکھ سے زائد افغانوں کو جبری طور پر واپس بھیجا گیا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں واپسی سے افغانستان کی پہلے سے ہی نازک معاشی صورتحال کے غیر مستحکم ہونے کا خطرہ ہے، جہاں سن 2021 میں طالبان نے اقتدار سنبھالا تھا۔

نیا حکم نامہ کیا ہے؟

31 جولائی کوپاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق تمام افغان شہری، جن کے پی او آر کارڈز ہیں، ان کی میعاد ختم ہوچکی ہے اور انہیں واپس بھیجا جائے گا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق، جن افغان شہریوں کے پاس درست پاسپورٹ اور پاکستانی ویزے نہیں ہیں، وہ غیر قانونی طور پر ملک میں موجود ہیں اور انہیں پاکستانی امیگریشن قوانین کے تحت وطن واپس جانا ہو گا۔

طالبان، لوٹنے والے افغان شہریوں کے ’حقوق کی خلاف ورزیاں‘ کر رہے ہیں، اقوام متحدہ

دو سرکاری اور سکیورٹی حکام، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، نے بتایا کہ پولیس ملک بھر میں افغان مہاجرین کو حراست میں لے کر سرحدی گزرگاہوں تک منتقل کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں نہیں ہو رہی ہیں اور پولیس کو گھر گھر جا کر یا بے ترتیب چیکنگ کے ذریعے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو حراست میں لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

خیبر پختونخوا کے کمشنر برائے افغان مہاجرین شکیل خان نے کہا، ''جی ہاں، پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو عزت کے ساتھ واپس بھیجا جا رہا ہے۔

‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ تازہ آپریشن اسلام آباد سے وفاقی حکومت کے احکامات کے تحت اب تک کا سب سے اہم قدم ہے۔

ایک 35 سالہ افغان مہاجر رحمت اللہ، جن کا خاندان کئی دہائیوں قبل پشاور منتقل ہوا تھا، نے بتایا کہ وہ اب وطن واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا،''میرے پانچ بچے ہیں اور میری فکر ہے کہ وہ اپنی تعلیم سے محروم ہو جائیں گے۔

میں یہاں پیدا ہوا، میرے بچے یہاں پیدا ہوئے اور اب ہم واپس جا رہے ہیں۔‘‘

گزشتہ چار دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان جنگ، سیاسی بدامنی اور معاشی مشکلات سے بچنے کے لیے پاکستان آئے۔ یہ تازہ بے دخلی مہم سن 2023 میں شروع کیے گئے ملک گیر کریک ڈاؤن کا حصہ ہے۔

اقوام متحدہ کی طرف سے تنقید

یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے حکومت کے حالیہ اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''اس طرح لوگوں کو واپس بھیجنا غیر قانونی واپسی کے مترادف ہے اور یہ ریاست کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔‘‘

انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ''انسانی ہمدردی پر مبنی نقطہ نظر اپنائے تاکہ افغانوں کی رضاکارانہ، بتدریج اور عزت کے ساتھ واپسی یقینی ہو۔‘‘ تاہم انہوں نے پاکستان کی طرف سے چار دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی بھی تعریف کی۔

آفریدی نے مزید کہا، '' ایسی بڑے پیمانے پر اور جلد بازی میں واپسی افغان مہاجرین کی زندگیوں اور آزادی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے اور یہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘

ادارت: کشور مصطفیٰ