اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 جون 2025ء) ایک طرف حکومت پاکستان ملک میں غیرقانونی طورپرمقیم افغان باشندوں کو گرفتارکر کے واپس اپنے ملک بھیج رہی ہے تو دوسری جانب یہاں سرکاری اورنجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طلبہ کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف نجی وسرکاری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم 275 طلبہ کوحال ہی میں ٹیبلٹ کمپیوٹرز فراہم کیے گئے۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاورمیں منعقدہ اس تقریب میں ملک بھرسے آنیوالے سینکڑوں کی تعداد میں افغان طلبہ نے شرکت کی۔ علامہ اقبال اسکالرشپس کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے ان طلبہ کواقوام متحدہ اورہائرایجوکیشن کی باہمی معاونت سے معلومات تک آسانی سے رسائی کے لیے ٹیبلٹس کمپیوٹرز فراہم کیے گئے۔(جاری ہے)
پاکستان نے ستمبر2023 ء سے ملک کے مختلف شہروں میں مقیم افغان باشندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا اور انہیں ملک بدر کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب، سندھ اور آزاد کشمیر سمیت گلگت بلتستان سے ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کوگرفتار کرکے خیبرپختونخوا کی مختلف گذرگاہوں سے افغانستان ڈی پورٹ کیا ہے۔ تاہم خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے یہاں مقیم افغان باشندوں کے خلاف کارروائی روک دی ہے۔ صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ وفاق نے اس اہم فیصلے میں پختونخوا حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا۔ خیبرپختونخواکے مختلف شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے رہائش پذیر ہیں ان میں انہی 275 طلبہ کے خاندان بھی شامل ہیں۔ وفاقی حکومت کے اس فیصلے نے پاکستان میں زیر تعلیم طلبہ کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ ان کے خاندان کے افراد کو ڈی پورٹ کرنے کا ڈر لگارہتا ہے۔ ان کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی سہولیات فراہم کرکے گھر بیٹھ کراپنی پڑھائی اورریسرچ کرنے کے مراحل آسان کردیے گئے ہیں۔خیبر پختونخوا حکومت کی افغان پالیسی
خیر پختونخوا حکومت کی افغان پالیسی کے حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹرمحمد علی سیف کا کہنا ہے، ''افغان مہاجرین کی بے دخلی کی پالیسی پر وفاق سے ہمارا اختلاف ہے ہم چاہتے ہیں کہ افغان مہاجرین کو زبردستی نہ نکالا جائے وفاق کی اس پالیسی کے انتہائی منفی اثرات سامنے آئیں گے۔
‘‘ انکا مزید کہنا تھا، ''امریکہ کے نکل جانے کے بعد وفاق کی ذمہ داری تھی کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لاتی لیکن افغانستان کو چھوڑ کربلاول بھٹو نے پوری دنیا کے دورے کیے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے کئی طرح کے رشتے ہیں۔ ہم انکا ساتھ نہیں چھوڑسکتے جہاں جہاں انہیں ضرورت ہوگی ہم تعاون کریں گے۔‘‘صوبائی وزیر سماجی بہبود کا موقف
افغان طلبہ کوڈیجیٹل ٹیبلٹس کی فراہمی کی تقریب کے مہمان خصوصی خیبرپختونخوا کے سماجی بہبود اور ویمن امپاورمنٹ کے وزیرسید قاسم علی شاہ تھے۔
اس موقع پر انکا کہنا تھا، ''سینکڑوں افغان طلبہ کو ٹیبلیٹ فراہم کرنے سے تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ علاقائی بھائی چارے میں بہتری آئے گی۔ انکا مزید کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت افغان طلبہ کو تعلیم مکمل کرنے کے لیے ہرممکن تعاون فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ صوبائی حکومت اگلے سال 4500 افغان طلبہ کو وظائف دے گی۔انکا کہنا تھا کہ افغانستان صرف پڑوسی ملک نہیں بلکہ انکے ساتھ تاریخ ، ثقافت اورمذہب کا رشتہ ہے۔
انکا مزید کہنا تھا، ''ڈیجیٹل آلات کی فراہمی نئی نسل کو عصرحاضرکے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہے جو نہ صرف تعلیم کے حصول بلکہ بااختیارمعاشرے کے قیام کی بنیاد بھی رکھتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا،''ہم چاہتے ہیں کہ افغان نوجوان تعلیم حاصل کرکے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں ۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''جن کے پاس ویزے کے لیے دستاویزات نہیں ہیں وہ انہیں مکمل کریں۔پختونخوا حکومت ان بچوں کے مستقبل کی بہتری کے لیے پُرعزم ہے۔‘‘افغان طلبہ کیا کہہ رہے ہیں
اس تقریب میں زیادہ ترطلبہ حکومت پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نظرآئے۔ تاہم انجینئرنگ کے طالب علم عبدالحسیب کا کہنا تھا،''ہمیں افغانستان سے واپس آنے پر ویزہ کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ بعض اسٹوڈنٹس ایسے بھی ہیں جنہیں ویزہ نہ ملنے پرانکا ایک سمسٹر ضائع ہوگیا ہے۔
انکا کہنا تھا، '' یہاں سب کچھ انگریزی اورافغانستان میں پشتو میں ہے جس کی وجہ سے بعض طلبہ کو مشکل کا سامنا ہے تاہم چونکہ زیادہ ترافغان یہاں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس وجہ سے انہیں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔‘‘پنجاب میں زیرتعلیم مینا محمدزئی( فرضی نام) کا کہنا تھا کہ انکی پیدائش بھی پاکستان میں ہوئی اور وہ یہاں تعلیم حاصل کر چُکی ہیں۔
لہٰذا انہیں کسی قسم کی مشکل نہیں۔ انکا کہنا تھا، ''حالیہ غیرقانونی افغان باشندوں کی بے دخلی پرافغان باشندوں میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ انہیں اپنے کاروبارکوسمیٹنے کے لیے وقت دینا چاہیے۔افغانستان میں نہ توکاروبار ہے اورنہ ملازمت کے مواقع ۔ ایسے میں وہاں پہنچنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اورافغانستان کو پاکستان میں رہائش پذیر افغانوں کو مختلف کیٹگری میں تقسیم کرنا چاہیے اوراسکے مطابق طویل المدت پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آسکے۔‘‘ادارت: کشور مصطفیٰ