Live Updates

آرمی آفیسرز کے لیے ریلیف الاؤنس، باقی ملک کے لیے بھی کچھ؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 13 جون 2025 20:20

آرمی آفیسرز کے لیے ریلیف الاؤنس، باقی ملک کے لیے بھی کچھ؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جون 2025ء) پاکستانی وزارتِ خزانہ نے جمعرات کو ایک پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ مسلح افواج کے افسران کو بنیادی تنخواہ کا 50 فیصد خصوصی ریلیف الاؤنس دیا گیا ہے، جبکہ جونیئر کمیشنڈ افسران اور سپاہیوں کو آئندہ مالی سال میں 20 فیصد اضافی الاؤنس ملے گا۔

پاکستان کا 17.5 ٹریلین روپے کا بجٹ: قرضوں کی ادائیگی پہلے، لوگ بعد میں

پاکستان میں سالانہ فوجی اخراجات، جی ڈی پی کا کتنے فیصد؟

تاہم وزارتِ خزانہ نے اراکین کے سوالات کے جواب میں ان الاؤنسز کے مالی اثرات اور افسران کے لیے زیادہ ریلیف کی وجہ نہیں بتائی۔

وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے وعدہ کیا کہ وہ اس بارے میں تفصیلی جواب بعد میں فراہم کریں گے۔

سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے پارلیمانی کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ رواں مالی سال کے لیے پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے لیے مختص رقم کو 1.1 کھرب روپے سے کم کر کے 967 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

اس پر اراکین نے نشاندہی کی کہ ترقیاتی اخراجات میں کمی کئی دیگر معاشی اشاریوں پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

حالیہ بجٹ ایک خاص طبقے کے لیے؟

معاشرے کے مختلف حلقوں نے حکومت کی جانب سے فوجی افسران کی تنخواہوں میں ریلیف الاؤنس کے نام پر اضافے کو تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ اس بار حکومت نے ایک طبقاتی بجٹ پیش کیا ہے، جو امیر اور طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچانے جبکہ غریب عوام کو دبانے اور انہیں کسی ریلیف کا حقدار نہ سمجھنے کی عکاسی کرتا ہے۔

معروف ماہرِ معاشیات قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا بجٹ طبقاتی نوعیت کا ہے، اور خصوصی ریلیف الاؤنس کے معاملے میں بھی یہ حقیقت واضح طور پر نظر آتی ہے کہ افسران کو 50 فیصد ریلیف دیا جا رہا ہے، حالانکہ وہ پہلے ہی بہتر تنخواہیں اور سہولیات حاصل کر رہے ہیں، جبکہ اسی محکمے کے غریب اہلکاروں کو کم ریلیف دیا گیا ہے۔

انہوں نے چیئرمین سینیٹ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہوں میں اضافے کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا، ’’اشرافیہ صرف اپنے مفادات کا خیال رکھتی ہے… اب تو اشرافیہ یہ چیز چھپانے کی بھی کوشش نہیں کر رہی کہ وہ صرف اپنے لیے اور اپنے جیسوں کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔‘‘

قیصر بنگالی نے کم از کم تنخواہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسے گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی 37 ہزار روپے ماہانہ ہی رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ''حکومت نے غریب مزدوروں کی جو معاشرے کا پسا ہوا طبقہ ہیں، اجرت میں اضافہ نہیں کیا اور یہ طبقہ وزیر خزانہ کے دعوے کے برعکس مہنگائی میں اضافے کا باعث نہیں بنتا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''ستم یہ ہے کہ حکومت اس موجودہ کم از کم تنخواہ پر بھی عملدرآمد کروانے میں ناکام رہی ہے، کیونکہ کاروباری حضرات اور صنعت کار مزدوروں کو کم از کم اجرت دینے پربھی تیار نہیں جو کہ پہلے ہی بہت کم ہے۔

‘‘

'اضافی ریلیف معیشت پر بوجھ‘

دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ اضافی ریلیف کا اثر نہ صرف معیشت پر پڑے گا بلکہ ملک میں پہلے سے موجود طبقاتی نظام کو بھی مزید مضبوط کرے گا۔

دفاعی و سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کسی بھی صورت میں قابلِ ستائش نہیں، کیونکہ دفاعی بجٹ میں پہلے ہی اضافہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ''معاشرے میں دیگر انتہائی غریب لوگ بھی موجود ہیں، اور یہ فیصلہ کسی بھی صورت درست نہیں مانا جا سکتا۔‘‘

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان نے یقینی طور پر بھارت کے خلاف جنگ جیت رکھی ہے اور اس کے بعد ملک کا دفاعی بجٹ پہلے ہی 20 فیصد بڑھایا جا چکا ہے، جس کے نتیجے میں موجودہ دفاعی بجٹ میں 400 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا، جو کہ کافی ہونا چاہیے تھا۔

’فوجی اہلکاروں کو مراعات دینا وقت اہم ضرورت‘

دفاعی شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا تاہم ماننا ہے کہ فوجی اہلکاروں کو مراعات دینا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ''کوئی بھوکا جنگ نہیں لڑ سکتا‘‘۔

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) خالد نعیم لودھی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''تنخواہوں یا ریلیف الاؤنس میں اضافہ تمام سرکاری ملازمین کو دیا جانا چاہیے تھا، لیکن اگر وسائل محدود ہیں تو فوج کو پہلے ریلیف دیا جانا چاہیے کیونکہ ہمیں اپنے افسران اور سپاہیوں کو مراعات اور ترغیب دینی ہے جو سرحد پر لڑتے ہیں۔‘‘


ادارت: افسر اعوان

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات