
اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کی سماعت 17جون تک ملتوی
پیر 16 جون 2025 16:19
(جاری ہے)
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ میں کسی قسم کی ڈیپوٹیشن یا جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول نہیں ہے، سول سروس میں ڈیپوٹیشن یا ملازم کو محکمے میں ضم کرنے کا اصول ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اختیار کیا کہ بغیر رضامندی کسی بھی جج کا ٹرانسفر انصاف کے برخلاف ہے، اس کیس میں یہ اضافی تقرری ہے، بھارت میں کسی جج کے پاس ٹرانسفر سے انکار کا اختیار نہیں ہوتا، وہاں یہ معاملہ الگ ہے، وہاں جج کی مرضی نہیں لی جاتی، ایس پی گپتا کیس میں کہا گیا تھا کہ جج سے رائے لی جانی چاہئے لیکن بعد میں بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا کہ جج سے نہیں پوچھا جانا چاہئے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہمارے ہاں ججز کی مرضی سے ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو سنیارٹی سے محروم ہونا کوئی نا انصافی نہیں ہے، جج کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ٹرانسفر ہونا چاہتا ہے یا پھر نہیں، وہ دیکھے کہ وہ کیا پندرہویں نمبر سے آٹھویں نمبر پر جانا چاہتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جو کہا کہ ٹرانسفر ججز کے ساتھ تو یہ ناانصافی ہے لیکن ایسا نہیں ہے، سول سروس کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کیڈر ایک ہو تو سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، اگر کیڈر الگ ہوگا تو سنیارٹی متاثر ہوگی، مگر یہاں معاملہ ججز ٹرانسفرز اور سنیارٹی کا ہے، اس پر براہ راست سول سروس رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی مرضی کے ساتھ تبادلہ ہو اور سنیارٹی پر فرق آئے تو نا انصافی نہیں ہوگی تاہم اگر تبادلہ کسی پر مسلط کردیا جائے اور سنیارٹی متاثر ہو تو ضرور ناانصافی ہوگی۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اسی اصول کے تحت انڈیا میں ججز سنیارٹی ٹرانسفرز کے وقت انکے ساتھ چلتی ہے کیونکہ ان سے پوچھا نہیں جاتا، ابھی دو ہفتے پہلے ہندوستانی ہائیکورٹس میں ججز ٹرانسفر ہوئے، دہلی ہائی کورٹ کے سینئر پیونی ججز کو کرناٹک ہائیکورٹ کا چیف جسٹس لگایا گیا، اصول یہ ہے کہ ٹرانسفرز کے وقت صرف ٹرانسفر شدہ ججز کے ساتھ انصاف نہیں ہونا چاہئے، جس ہائیکورٹ میں ججز آئیں اور جس ہائیکورٹ سے ججز ٹرانسفر ہوئے، وہاں کے دیگر ججز کو بھی ٹرانسفر ہونے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے متفرق درخواست دائر کر دی جس پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے استفسار کیا کہ کیا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کوئی درخواست دائر کی ہے؟ امجد پرویز نے موقف اختیار کیا کہ میں نے 1947 سے 1976 تک ججز ٹرانسفر کی مکمل تاریخ پیش کی ہے، ہم اس کیس میں فریق نہیں تھے، 27 اے کا نوٹس ضرور ہوا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے یہ نوٹس فریق بننے کیلئے ہی ہوتا ہے، آپ کو اٹارنی جنرل کے بعد دلائل دینا چاہیے تھے، آپ کو نہیں پتہ 27 اے کا نوٹس کتنا اہم ہوتا ہے؟ جب لاہور ہائیکورٹ رجسٹرار نے اپنے کمنٹس جمع کرائے ہیں تو آپ تو اس کیس میں مرکزی فریق ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل ختم ہوں تو آپ کو سنیں گے۔ بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ سنیارٹی تقرری کے دن سے شمار ہوگی، جج ہائیکورٹ میں تبادلہ پر آگیا تو اسکی پہلی سنیارٹی کا کیا ہوگا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ تبادلے کے عمل میں جج کی رضا مندی نہ ہو تو سارا عمل وہیں ختم ہو جائے گا، جج رضامندی دے بھی دیں اس ہائیکورٹ کا چیف جسٹس انکار کردے تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا، جس ہائیکورٹ میں جانا ہے وہاں کا چیف جسٹس انکار کردے تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا، چیف جسٹس پاکستان تبادلے پر انکار کردے تب بھی جج کا تبادلہ نہیں ہو سکے گا۔ عدالت میں ساری بات صدر کے اختیار پر ہو رہی ہے، صدر کا اختیار استعمال ہونے سے قبل جتنا پراسس ہوگا اس پر کسی نے کچھ نہیں کہا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین میں لکھی ہر لائن کا مطلب اور مقصد ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ سارا ایشو تو آپکا اپنا ہی بنایا ہوا ہے، آئین کا ایک ایک لفظ اور لائن اہم ہے، ایسا نہیں کر سکتے جس سے یہ کہنا شروع ہو جائیں کہ سپریم کورٹ نے آئین میں ہی ترمیم کر ڈالی۔ بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اپنایا کہ الجہاد ٹرسٹ کا فیصلہ پہلے ہوا، مصطفی ایمپکٹ کیس بعد میں آیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے آئین میں وزیر اعظم یا کابینہ کے الفاظ تو سن 1985 سے شامل ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا آرمی چیف کی تقرری کے عمل میں کابینہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ایسی مثال بھی ہے جہاں سپریم کورٹ نے ایک آرمی چیف کی توسیع کیس میں پارلیمنٹ کو چھ ماہ کیلئے قانون سازی کا وقت دیا ۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا اس کیس میں وزیر اعظم یا کابینہ کی سمری کا سوال نہیں تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دلائل عمومی نوعیت کے ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا جسٹس شکیل احمد نے ایڈمنسٹریٹو کمیٹی کے بارے میں سوال پوچھا تھا، ہائیکورٹ سروس اینڈ رولز کمیٹی میں ترمیم کی گئی، تین پہلے سینئر ججز کے بجائے ایک سینئر جج اور کوئی بھی دو دیگر ججز کو شامل کرنے کی تبدیلی کی گئی، وہ ججز جن کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئے ہوئے تین دن ہوئے انھیں ججز انتظامی کمیٹی میں شامل کر دیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ کیا ججز انتظامی کمیٹی کا معاملہ کسی نے چیلنج کیا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ابھی 2025 میں رولز بنائے، یہ رولز ہائیکورٹ نے بنانا ہوتے ہیں، ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اور تمام ججز شامل ہوتے ہیں۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا ان رولز کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی ہو چکا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے رولز تو فل کورٹ سے ہی منظور ہونا ہوتے ہیں۔ پانچ ججز کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین کے جواب الجواب دلائل کی تکمیل پرعدالت نے دیگر درخواست گزاروں کے وکلا کوبھی منگل کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کے ساتھ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی۔مزید قومی خبریں
-
پاکستان نے بھارتی جنگی طیارے مار گرائے تھے، بھارتی دفاعی اتاشی کا اعتراف
-
یو اے ای میں20لاکھ درہم مالیت کی جائیداد رکھنے والے پاکستانیوں کی شناخت کرلی گئی
-
سپریم کورٹ آئینی بنچ کے فیصلے کے بڑے بینفیشری مولانا فضل الرحمان ہیں، بیرسٹر سیف
-
اگلے سال ملک میں گندم اور کپاس کاشت نہیں ہوگی، کسان اتحاد کا اعلان
-
راولپنڈی میں گھر سے 5 تولے سونے کے زیورات چوری، واردات میں اپنے ہی ملوث نکلے
-
ملک بھر میں 5 جولائی تک شدید بارشوں کی پیشگوئی
-
بلوچستان کی سرزمین پر دہشتگردی کا کوئی وجود برداشت نہیں کیا جائے گا، وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی
-
آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مختلف مقامات پر تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان
-
مسلم لیگ ن کی سینئر رہنما اور سینئرسیاستدان بیگم تہمینہ دولتانہ علیل
-
شادی جوا ء ہے، جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہتی‘مہوش حیات
-
ملک بھر میں حالیہ بارشوں کے دوران 38 افراد جاں بحق ہوئے ‘ این ڈی ایم اے
-
ملک کے پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کیلئے 7 منصوبوں کی منظوری دیدی گئی
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.