�ہران /تل ابیب /واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 جون2025ء)امریکا نے اپنے جدید ترین B-2 بمبار طیاروں کے ساتھ ایران کی تین جوہری تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان کو نشانہ بنایا ہے اور امریکی صدر نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے حملے میں فردو کے ایٹمی پلانٹ کو مکمل تباہ کردیا ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی طیاروں نے ایران کی 3 ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر دیا ہے، امریکی طیاروں نے فردو، نطنز اور اصفہان میں واقع ایرانی نیوکلیئر تنصیبات پر حملہ کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکانٹ میں حملے کے حوالے سے تفصیلات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے تین جوہری سائٹس پر کامیاب حملہ مکمل کر لیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی فضائیہ نے ایران کے تین اہم جوہری مراکز پر کامیاب حملہ کیا، جس میں فردو، نطنز اور اصفہان کے جوہری سائٹس کو نشانہ بنایا گیا, حملے میں فردو ایٹمی پلانٹ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔
(جاری ہے)
حملے کے دوران تمام طیارے ایران کی فضائی حدود سے باہر پہنچ چکے ہیں اور ان کی واپسی کا سفر کامیابی سے جاری ہے۔صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ فردو جوہری مرکز پر بموں کا مکمل پے لوڈ گرایا گیا، جس سے اس اہم جوہری سائٹ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔امریکی صدر نے اس کارروائی کو دنیا کی سب سے پیشہ ورانہ اور کامیاب فضائی کارروائی قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی دوسرے فوجی ادارے کے پاس اس نوعیت کا آپریشن کرنے کی صلاحیت نہیں۔
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ ایک شاندار کامیابی ہے اور اس کا سہرا ہمارے بہادر امریکی فوجیوں کے سر ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم امن کی طرف قدم بڑھائیں۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران باز نہ آیا تو دوبارہ حملے کریں۔ دوسری جانب ایرانی میڈیا کے مطابق ایرانی حکام نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں ہر ایک امریکی شہری اور فوجی ہمارا ہدف ہیں، امریکی حملے پر ایران بھرپور جواب دینے کی تیاری کر رہا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نے حملے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، جبکہ مبینہ طور پر اس حملے میں بی-2 بمبار طیارے استعمال کیے گئے ہیں جو کہ گزشتہ روز ہی مشرق وسطی میں امریکی فوجی اڈے پر پہنچا دیے گئے تھے۔ایران نے امریکی حملوں کے نتیجے میں فردو، نطنز اور اصفہان میں جوہری سائٹس پر ہونے والی بمباری کی پہلی بار سرکاری طور پر تصدیق کی ہے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق صوبہ قم کے کرائسس مینجمنٹ کے ترجمان مرتضی حیدری نے بتایا کہ فردو جوہری مرکز کے ایک حصے پر فضائی حملہ ہوا ہے۔اس سے قبل ایران کے سرکاری ٹی وی پر ایران کے نائب سیاسی ڈائریکٹر حسن آبادی نے یہ دعوی کیا تھا کہ ان تینوں جوہری سائٹس کو حملے سے پہلے ہی خالی کرا لیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کی باتیں سچ ہیں لیکن ایران نے کوئی بڑا نقصان نہیں اٹھایا کیونکہ جوہری مواد پہلے ہی نکال لیا گیا تھا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے اصفہان میں نیوکلیئر سائٹ کونشانہ بنایا ہے، تاہم اسرائیلی حملے کے نتیجے میں کسی خطرناک مواد کا کوئی اخراج نہیں ہورہا۔اصفہان کے نائب گورنر نے صوبے پر اسرائیلی حملوں کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کی ہیں۔ صوبائی اہلکار کا کہنا ہے کہ اصفہان پر اسرائیلی حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ایران کی وزارتِ خارجہ نے امریکی فضائی حملوں پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ان جارحانہ کارروائیوں کے خلاف پوری قوت سے مزاحمت کرے گا۔
وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے بین الاقوامی قوانین کی سنگین اور بے مثال خلاف ورزی کی ہے۔ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہاکہ دنیا یہ نہ بھولے کہ سفارتی عمل کے دوران سب سے بڑی خیانت امریکا نے کی، جس نے اسرائیل کی جارحیت کی حمایت کر کے ایران کے خلاف خطرناک جنگ کا آغاز کیا۔بیان میں مزید کہا گیا کہ: یہ واضح ہو چکا ہے کہ امریکا کسی ضابطے، اخلاقیات یا عالمی اصولوں کا پابند نہیں۔
وہ ایک نسل کش اور قابض ریاست کے مقاصد کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ایرانی وزارت خارجہ نے زور دے کر کہا کہ: اسلامی جمہوریہ ایران اپنے قومی مفادات اور سلامتی کے دفاع کے لیے پورے عزم اور طاقت کے ساتھ امریکی حملوں اور اس مجرمانہ ریاست کے خلاف مزاحمت کا حق رکھتا ہے۔ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکہ کے حالیہ فضائی حملوں پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کاروائی بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس کے ہمیشہ یاد رکھے جانے والے نتائج ہوں گے۔
عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا: امریکہ، جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے، نے ایران کی پرامن نیوکلیئر تنصیبات پر حملہ کر کے اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور NPT کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج صبح کے واقعات ناقابلِ برداشت، غیر قانونی اور مجرمانہ فعل ہیں، اور دنیا بھر کے تمام اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو اس خطرناک حرکت پر شدید تشویش ہونی چاہیے۔
وزیر خارجہ نے خبردار کیا کہ: ایران اپنی خودمختاری، مفادات اور عوام کے دفاع کے لیے تمام آپشنز محفوظ رکھتا ہے۔یہ عراقچی کا امریکی حملوں کے بعد پہلا عوامی بیان ہے، جو عالمی سطح پر امریکہ کے اقدامات پر ردِعمل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ایران نے اپنی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بعد اسرائیل پر جوابی میزائل برسادیے، جس کے نتیجے میں تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس دھماکوں سے گونج اٹھے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق ان حملوں میں 11 افراد زخمی ہو گئے۔ایران نے امریکی کارروائی کے ردِ عمل میں تل ابیب اور بیت المقدس پر میزائل داغے، جن کی آوازیں شہر بھر میں سنائی دیں۔اسرائیلی فوج نے 2 ایرانی ڈرونز مار گرانے کا دعوی کیا ہے، جنہیں اردن کی سرحد کے قریب روکا گیا۔اسرائیلی ایئرپورٹس اتھارٹی نے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر فضائی حدود کو تاحکم ثانی بند کر دیا ہے، تاہم اردن اور مصر سے ملحقہ زمینی راستے کھلے ہیں۔
اردن کی حکومت نے بھی ملک بھر میں خطرے کے پیشِ نظر سائرن بجا دیے ہیں تاکہ شہری الرٹ رہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کو خطرناک شدت قرار دیتے ہوئے اس بات کا انتباہ دیا ہے کہ اس تنازعہ کے شدت اختیار کرنے سے خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔سیکرٹری جنرل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ اب اس بات کا بڑھتا ہوا خطرہ موجود ہے کہ یہ تنازعہ تیزی سے قابو سے باہر ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں شہریوں خطے اور دنیا کے لیے تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔
ایران نے امریکہ کی جانب سے اپنے جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔نیویارک میں قائم ایران کے اقوام متحدہ مشن نے امریکی بمباری کو کھلی اور غیرقانونی جارحیت قرار دیتے ہوئے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کی شدید مذمت کرے۔ایرانی مشن کا کہنا تھا: سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنی ذمہ داری ادا کرے اور اس سنگین جرم کے مرتکب فریق کو مکمل انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ اسے سزا سے استثنی نہ ملے۔
ایران پر امریکی حملے کے بعد لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے واشنگٹن کی اس کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔کیوبا کے صدر میگل ڈیاز کینل نے امریکی بمباری کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خطرناک اضافہ ہے جو انسانیت کو ناقابل واپسی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔
چلی کے صدر گیبریل بورِک نے بھی امریکہ کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا۔ انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا: چلی امریکہ کے اس حملے کی مذمت کرتا ہے، طاقت رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اسے انسانیت کے طے کردہ قوانین کی خلاف ورزی میں استعمال کریں۔ چاہے آپ امریکہ ہی کیوں نہ ہوں۔میکسیکو کی وزارت خارجہ نے تنازع کو کم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا: ہم اپنی پرامن خارجہ پالیسی اور آئینی اصولوں کے تحت خطے میں کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
علاقائی ریاستوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہے۔وینزویلا کے وزیر خارجہ ایوان گِل نے ٹیلیگرام پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ:وینزویلا امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی درخواست پر کی گئی اس بمباری کی سخت اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ ہم فوری طور پر تمام دشمن کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفارت کاری اور مذاکرات کی حمایت کی ہے۔
آسٹریلوی حکومت نے اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کی براہ راست حمایت نہیں کی، تاہم ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو عالمی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا: ہم صدر ٹرمپ کے اس بیان کو نوٹ کرتے ہیں کہ اب امن کا وقت ہے، اور ہم کشیدگی میں کمی، مکالمے اور سفارتی راستہ اپنانے پر زور دیتے ہیں۔دوسری جانب، نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے حملوں پر فکرمندی ظاہر کی، تاہم انہوں نے امریکہ کی مذمت نہیں کی۔
ونسٹن پیٹرز نے کہا: یہ نہایت اہم ہے کہ مزید کشیدگی سے بچا جائے۔ نیوزی لینڈ سفارت کاری کی ہر کوشش کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور تمام فریقین سے مذاکرات میں واپسی کی اپیل کرتا ہے۔ سفارتی حل ہی پائیدار راستہ ہے، فوجی کارروائیاں نہیں۔یہ محتاط اور متوازن ردعمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مغربی اتحادی ممالک بھی خطے میں مزید بگاڑ سے بچنا چاہتے ہیں۔