
نقصانات کا تخمینہ: آئی اے ای اے کا ایرانی جوہری تنصیبات تک رسائی کا مطالبہ
یو این
پیر 23 جون 2025
20:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جون 2025ء) جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) نے ایران میں امریکہ کی بمباری کا نشانہ بننے والی تنصیبات تک فوری رسائی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ انہیں ہونے والے نقصانات اور جوہری تحفظ و سلامتی کی صورتحال کا درست اندازہ ہو سکے۔
'آئی اے ای اے' کے ڈائریکٹر جنرل رافائل میریانو گروسی نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر اس حملے میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نمایاں نقصان پہنچا ہے۔
ادارے معائنہ کاروں کو ایران کے جوہری مقامات پر واپس جا کر وہاں موجودہ صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے۔
ڈائریکٹر جنرل نے یہ بات ادارے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں کہی ہے جبکہ ایران کے دارالحکومت تہران اور دیگر مقامات پر عسکری اہداف پر اسرائیل کے نئے میزائل حملوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
(جاری ہے)
رافائل گروسی نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کی بمباری کے بعد ایران کے فردو جوہری مرکز پر گڑھے واضح دکھائی دیتے ہیں۔ ایران کے پاس 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کی 400 کلوگرام مقدار موجود ہے جس کے باعث بمباری کا نشانہ بننے والے جوہری مراکز کے بارے میں سنگین خدشات پائے جاتے ہیں۔
یورینیم کی حد سے زیادہ افزودگی
2015 میں ایران، امریکہ اور یورپی ممالک کے مابین طے پانے والے جوہری معاہدے کی رو سے ایران یورینیم کو چار فیصد سے کم حد تک ہی افزودہ کر سکتا ہے۔
رافائل گروسی نے کہا ہے کہ فردو ایران کا اہم جوہری مرکز ہے جہاں یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کیا جاتا رہا ہے۔ امریکہ کے مطابق، اس مرکز پر حملے میں جو بم استعمال کیے گئے وہ زمین کے اندر گہرائی تک جا کر ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
چنانچہ، انہوں ںے واضح کیا ہے کہ اس جگہ جوہری تحفظ کی موجودہ صورتحال کا مکمل جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ اس حملے میں جس قدر بھاری بم استعمال کیے گئے ہیں اسے دیکھتے ہوئے متوقع طور پر زیرزمین جوہری تنصیبات کو بھاری نقصان پہنچا ہے جہاں یورینیم کو افزودہ کرنے کے لیے انتہائی حساس سینٹری فیوج مشینیں استعمال ہو رہی تھیں۔نازک جوہری تحفظ
فردو کے علاوہ اصفہان، آراک اور تہران میں بھی ایران کی جوہری تنصیبات اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کا نشانہ بنی ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ اگرچہ ان تنصیبات کے باہر تابکاری کی سطح معمول کے مطابق ہے تاہم بوشہر کے فعال ایٹمی پلانٹ کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ اس جگہ حملے کی صورت میں بڑے پیمانے پر تابکاری کا اخراج ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ جوہری تنصیبات پر کسی بھی طرح کے حملے انتہائی خطرناک ہیں کیونکہ جن تنصیبات کے گرد مضبوط حفاظتی دیواریں ہوں وہ بھی میزائل حملوں سے محفوظ نہیں ہوتیں۔
جنگ، تباہی اور دہشت
ایران پر 10 روز سے جاری اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 430 ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی انتہائی محدود ہے اور لوگ خوراک اور ایندھن کے حصول کے لیے طویل قطاروں میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک شہری نے یو این نیوز کو بتایا کہ ایسے وقت میں روٹی بھی کمیاب ہو گئی ہے۔ جن لوگوں کے پاس دہری شہریت ہے وہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
ان حالات میں معمر اور کمزور لوگوں کے لیے مسائل بڑھ گئے ہیں کیونکہ ان کی نگہداشت کرنے والے انہیں چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ایران کے میزائل حملوں سے متاثرہ اسرائیل کے شہریوں نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ بند ہونی چاہیے کیونکہ اس سے لوگوں کے گھر تباہ ہو رہے ہیں اور انسانی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔
جوہری خطرات کی اقسام
'آئی اے ای اے' نے بتایا ہے کہ جوہری تنصیبات پر حملوں سے فضا میں تابکاری پھیلنےکا خطرہ ہوتا ہے جس سے انسانی صحت و زندگی اور ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
یورینیم افزدوہ کرنے کی تنصیبات پر حملوں سے یورینیم ہیکسا فلورائیڈ کے اخراج کا خطرہ ہوتا ہے۔ جب اس کا واسطہ نمی سے پڑے تو یورینیم اور فلورین ہائیڈروجن فلورائیڈ میں تبدیل ہو جاتی ہیں جو انتہائی زہریلی گیس ہے جس سے جلد اور پھیپھڑوں کو شدید نقصان ہوتا ہے۔
یورینیم کی افزودگی کے مقامات پر حملوں سے خارج ہونے والی تابکاری کی مقدار جوہری ری ایکٹر کو ہونے والے نقصان سے جنم لینے والی تباہی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ جن تنصیبات پر جوہری ری ایکٹر موجود ہوں وہاں حملوں کے نتیجے میں ٹھنڈک پیدا کرنے والے نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تابکاری نکلتی ہے۔ایرانی تنصیبات کا ممکنہ نقصان
'آئی اے ای اے' کے مطابق، ایران کے جوہری پروگرام میں ایسی تنصیبات بھی شامل ہیں جہاں ہونے والی سرگرمیوں کے حوالے سے کئی طرح کے خدشات پائے جاتے ہیں۔
بوشہر جوہری بجلی گھر ایران میں تجارتی سطح پر کام کرنے والا واحد فعال ری ایکٹر ہے جسے تاحال کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن وہاں تابکار مواد کی مقدار ادارے کی مقرر کردہ محفوظ حد سے کہیں زیادہ ہے۔تہران میں واقع مرکز کے ری ایکٹر چھوٹے ہیں جبکہ آراک میں حملے کا نشانہ بننے والے بھاری پانی کے ری ایکٹر میں کوئی جوہری مواد موجود نہیں تھا۔
نطنز اور فردو میں یورینیم کی افزودگی کے مراکز زیرزمین ہیں جن کے گرد مضبوط حفاظتی حصار قائم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انہیں پہنچنے والے حالیہ نقصان کے باوجود تابکاری کے اخراج کا امکان محدود ہے۔ تاہم اصفہان میں یورینیم ہیکسا فلورائیڈ کی موجودگی میں وہاں حملے سے ہونے والے کسی بڑے ممکنہ نقصان کے باعث زہریلے کیمیائی مواد کے اخراج کے خدشات نسبتاً زیادہ ہیں۔
بین الاقوامی قوانین، معاہدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت پرامن جوہری تنصیبات پر حملے ممنوع ہیں۔ 'آئی اے ای اے' نے واضح کیا ہے کہ ایسے حملوں سے ناصرف ملک کی قومی سلامتی کو خطرہ ہوتا ہے بلکہ علاقائی اور عالمی استحکام پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں۔

مزید اہم خبریں
-
نقصانات کا تخمینہ: آئی اے ای اے کا ایرانی جوہری تنصیبات تک رسائی کا مطالبہ
-
بلاول بھٹو نے تنخواہوں اور پنشن میں صرف 10 اور 7 فیصد اضافے کو بھی حکومت کا اچھا فیصلہ قرار دے دیا
-
خواجہ آصف کی ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کیلئے نامزد کرنے کی حمایت
-
قومی سلامتی کمیٹی نے ایران پر حملوں کو عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی قراردادوں اوریواین چارٹر کی خلاف ورزی قرار دے دیا
-
پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں تقریباً 4 ہزار پوائنٹس کی بدترین مندی
-
مہنگائی میں 800 فیصد کا خوفناک اضافہ ہونے کا خدشہ
-
روس کے کییف پر بڑے ڈرون اور میزائل حملے، سات افراد ہلاک
-
روٹ 47 صرف ایک سڑک نہیں بلکہ پنجاب میں سمارٹ ترقی کی ایک نئی داستان ہے
-
ایران پر امریکی حملے، کون سا ملک کس کے ساتھ کھڑا ہے؟
-
بیوہ خواتین کو محض ہمدردی نہیں، حق اور سہارا بھی دے رہے ہیں: مریم نواز
-
ایران اسرائیل جنگ سے معیشت متاثر ہونے کا امکان ہے ،وزیر خزانہ
-
سپریم کورٹ نے آرمڈ فورسز کے افسران کو بغیر تحریری امتحان سول سروس میں شامل کیے جانے کے معاملے پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.