- امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات پر تیار ہیں، ایران
امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات پر تیار ہیں، ایران
ایران بنیادی طور پر امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہے۔ یہ بات ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھی ہے۔
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر عراقچی نے اپنی پوسٹ میں عراقچی نے لکھا، ’’اگر صدر ٹرمپ ایک معاہدے کے لیے واقعی مخلص ہیں، تو انہیں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے لیے گستاخانہ اور ناقابل قبول لہجہ بدلنا ہو گا اور ان کے لاکھوں پرستاروں کو تکلیف پہنچانے سے رکنا ہو گا۔
‘‘انہوں نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا، ’’خیر سگالی، خیر سگالی کو جنم دیتی ہے اور احترام احترم کو۔
(جاری ہے)
‘‘
اس سے قبل ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے علی خامنہ ای کو ایک ’بری‘ اور ’ذلت آمیز‘ موت سے بچایا تھا۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو کے سربراہی اجلاس کے موقع پر کہا تھا کہ ایران کے ساتھ نئی بات چیت آئندہ ہفتے ہو گی تاہم انہوں نے کوئی تفصیلات نہیں دی تھیں۔
امریکہ ایران جوہری مذاکرات اور اسرائیل کے ایران پر حملے
امریکہ اور ایران کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے گزشتہ چند ماہ کے دوران مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے تاہم کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔
پھر جون کے دوسرے ہفتے میں اسرائیل نے یہ کہتے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بعد ازاں امریکہ نے بھی اسرائیل کی حمایت میں ایران کی جوہری تنصیات کو نشانہ بنایا۔
ایران مسلسل یہ کہتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سویلین مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اگر ایران یورینیم کی افزدوگی کے بارے میں خدشات دوبارہ ابھرتے ہیں تو کیا وہ ایرنی جوہری تنصیبات پر دوبارہ بمباری کا حکم دیں گے؟ تو ان کا جواب یہ کہتے ہوئے ہاں میں تھا، کہ ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ٹرمپ نے اپنی یہ بات بھی دہرائی کہ تازہ بمباری کے سبب ایران کا جوہری پروگرام کئی سال پیچھے چلا گیا ہے۔
اسرائیلی اور امریکی حملوں کے بعد ایرانی پارلیمان نے رواں ہفتے ایک قانون منظور کیا جس میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کا کہا گیا، تاہم تہران نے ابھی تک اقوام متحدہ کے اس ادارے کو اس بارے میں کوئی نوٹیفیکیشن نہیں بھیجا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ جوہری مذاکرات بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی تکنیکی نگرانی کے بغیر ممکن نہیں ہوں گے۔