ایرانی دفاعی نظام کو امریکہ و اسرائیل نے تباہ کر دیا، جنرل پٹریاس
ایرانی جوہری پروگرام کوختم کرنے کے لیے اب بھی سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے،گفتگو
جمعرات 3 جولائی 2025
16:14
واشنگٹں (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جولائی2025ء)امریکی سی ائی اے کے سابق سربراہ اور عراق اور افغانستان میں امریکی جنگوں کی قیادت کرنے والے فوجی سربراہ جنرل پٹریاس نے ایران کے خلاف بارہ روزہ جنگ کا عسکری تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیلی کے بہترین اور انتہائی ہموار کوآرڈینیشن کی بدولت ایران کا دفاعی نظام مکمل ملیا میٹ ہو چکا ہے۔
اس کے فضائی نظام اور میزائیل دفاعی نظام عملا ختم کر دیے گئے ہیں۔ مگر اس کے بعد بھی جہاں تک ایرانی جوہری پروگرام کا تعلق ہے اسے ختم کرنے کے لیے اب بھی سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے۔جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے وہ امریکہ کے غیر معمولی جرنیلوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی قیادت میں لڑی جانے والی امریکی جنگوں میں ایران کے پڑوس میں امریکہ نے انتہائی تباہ کن جنگیں لڑی ہیں۔
(جاری ہے)
جن کے نتیجے میں افغانستان اور عراق کو امریکی فوج نے برباد کر کے رکھ دیا۔ اس لیے ان کا ایران کے خلاف حالیہ جنگ پر تبصرہ انتہائی اہم ہے۔عرب ٹی وی سے گفتگومیںپیٹریاس نے کہا ایران کیخلاف امریکہ اور اسرائیل کی 12 روزہ جنگ انتہائی متاثر کن رہی۔ یقینا یہ امریکہ اور اسرائیل کی افواج کے درمیان ایک ہموار نوعیت کی کوآرڈینیشن کے بدولت ممکن ہوئی۔
جنرل پٹریاس نے کہا میرے خیال میں یہ کہنا درست ہوگا کہ ایران کے خلاف اس جنگ کے دوران ایران کا دفاعی نظام، ایرانی فضائیہ اور میزائل سسٹم کو تباہ کر کے پوری طرح ملیا میٹ کر دیا گیا ہے۔انہوں نے اس کے ساتھ ہی ایک دلیل کے طور پر کہا ساری جنگ کے دوران اسرائیل اور امریکہ کا ایک بھی جنگی طیارہ تباہ نہیں ہوا۔ گویا ایران کا کوئی دفاع باقی ہوتا تو کہیں تو مزاحمت کرتا، کہیں تو امریکہ و اسرائیل کے حملہ آور جنگی طیاروں کو گرانے کا دعوی کرتا۔
جنرل پٹریاس سے جب ایران کے جوہری پروگرام کی اس جنگ میں تباہی بارے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا جوہری پروگرام کو کافی زیادہ نقصان پہنچایا گیا۔ تاہم وہ ایرانی جوہری پروگرام کے لیے تباہی کے لفظ بولنے سے گریز کر گئے اور کہنے لگے ہم نہیں جانتے کہ فردو کے پہاڑوں کے نیچے کتنی تباہی ہوئی، کتنا کام ہو سکا یہ سمجھنے میں وقت لگے گا۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یورینیم افزودگی کی ایرانی صلاحیت باقی ہے یا ختم کردی گئی ہے۔
نیز پہلے سے آفزودہ یورینیم میں سے کتنی ایران بچانے میں کامیاب رہا ہے۔ اصل میں بموں سے ہونے والی تباہی کا جائزہ لینے میں بہرحال وقت لگتا ہے۔سابق سی آئی اے چیف نے مزید کہا اس کے باوجود کہ ایران کو جنگی کارروائی سے دھچکا لگا ہے لیکن جوہری پروگرام کے سلسلے میں اصل راستہ سفارت کاری ہی ہے۔ ایران کے ساتھ جڑے رہنا چاہیے۔ انہیں ایران کے ساتھ بیٹھنا چاہیے اور ایران کو بھی جوہری پروگرام کے لیے کوششیں ترک کر دینی چاہییں۔
انہوں نے ایران کے بارے میں کہا وہ ایک ایسا ملک ہے جو غیرمعمولی صلاحیت کا حامل ہے۔ جوہری صلاحیت تک پہنچنے میں اس کی ناکامی کی خطے کے دیگر حصوں میں اس کا فساد اور تباہی پھیلانے میں مصروف رہنا اور اس نوعیت کے چیلنج بنے ہیں۔ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا اگر ایران سویلین جوہری توانائی کا حصول چاہتا ہے تو اسے اس میں بین الاقوامی شراکت داروں کو مدد دینی چاہیے ۔
وہ ایران کو افزودہ کی ہوئی یورینیم فراہم کر سکتے ہیں۔ تاہم ایران کو خود یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔جہاں تک بین الاقوامی جوہری واچ ڈاگ کا تعلق ہے اسے حق ہے کہ کہیں بھی اور کسی بھی وقت جا سکے اور یہ تصدیق کر سکے کہ جوہری پروگرام مکمل ختم کر دیا گیا ہے یا ابھی باقی ہے۔انہوں نے پورے مشرق وسطی میں تبدیل شدہ حرکیات کا بھی ذکر کیا اور کہا ایک بدلتا ہوا علاقائی منظرنامہ سامنے ہے۔
حتی کہ شام کے بشار الاسد کا زوال اوراس کی جگہ ایک نئے رہنما کا سامنے آنا اہم بات ہے۔ میرا خیال ہے ہمیں احمد الشرع کو ہر موقع دینا چاہیے۔اسی طرح ایران کی علاقائی سطح پر کام کرنے والی پراکسیز تباہی سے دوچار ہیں۔ ایران نے خطے میں اپنی تذویراتی پوزیشن بہتر کی ہے۔ اب یہ آسان نہیں کہ اسرائیل کے سامنے عسکری طاقت بننے کی کوشش کرے۔بلاشبہ یہودیوں کے لیے ہولو کاسٹ کے بعد سات اکتوبر 2023 کا دن تھا ۔ اب ایسا نہیں رہا بلکہ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل متجاوز انداز میں خطے میں جدھر چاہتا ہے حملہ و بمباری کردیتا ہے۔