گوادر پورٹ کو فعال بنانے کے لیے صنعتی زون کا قیام ناگزیر ہے،پانی کی قلت خاتمے کے لیے سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹس لگائے جائیں، الطاف شکور

صنعتیں نہ لگیں تو گوادر محض ایک فوجی یا بحری اڈہ ہی رہے گا،تجارتی مرکز نہیں بن سکے گا،گوادر کو نیا دبئی بنانے کے لیے حکومت ایم ایل 1ریلوے منصوبہ کی تعمیر میں تیزی لائے ، بلاتعطل فراہمی کے لیے شمسی، ہوا یا کوئلے سے بجلی بنانے والے پاور پلانٹ قائم کیے جائیں،چیئرمین پاسبان

اتوار 13 جولائی 2025 17:55

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 جولائی2025ء) پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور نے کہا ہے کہ گوادر پورٹ کو مکمل طور پر فعال بنانے کے لیے اس کے قرب و جوار میں صنعتی و پیداواری زون کا قیام اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ اگرچہ گوادر پورٹ کے مؤثر استعمال میں سڑک اور ریل رابطے کی کمی اور سکیورٹی کے مسائل رکاوٹ ہیں، لیکن اصل ترقی تب ہی ممکن ہے جب اس کے ساتھ ایک مضبوط صنعتی مرکز قائم کیا جائے۔

گوادر کو صنعتیں، ریفائنریز، اور لاجسٹکس حب درکار ہیں تاکہ وہاں سے کارگو کی طلب پیدا ہو۔ صنعتیں نہ لگیں تو گوادر محض ایک فوجی یا بحری اڈہ ہی رہے گا، ایک تجارتی مرکز نہیں بن سکے گا۔ گوادر میں ایک بھرپور صنعتی و پیداواری زون فوری طور پر قائم کیا جائے۔

(جاری ہے)

گوادر کو نیا دبئی بنانے کے لیے حکومت ایم ایل 1ریلوے منصوبہ (پشاور تا کراچی) کی تعمیر میں تیزی لائے اور اسے گوادر سے منسلک کرے تاکہ مال برداری کا نظام بہتر ہو۔

اسی طرح ایسٹ بے ایکسپریس وے کو قومی شاہراہوں کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ اندرون ملک تجارت آسان ہو۔ گوادر سے چین (خنجراب پاس کے ذریعی) ایک خصوصی فریٹ کاریڈور بنایا جائے۔ گوادر میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے شمسی، ہوا یا کوئلے سے بجلی بنانے والے پاور پلانٹ قائم کیے جائیں اور پانی کی قلت ختم کرنے کے لیے سمندری پانی کو میٹھا بنانے والے پلانٹس لگائے جائیں۔

اگر حکومت محض زبانی دعووں کے بجائے عملی اقدامات کرے تو گوادر بندرگاہ چین پاکستان اقتصادی راہداری، سی پیک کے تحت علاقائی تجارت کے لیے واقعی ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ پاسبان اسٹیئرنگ کمیٹی کی میٹنگ میں گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی پی کے چیئرمین الطاف شکور نے مزید کہا کہ 2007سے فعال ہونے کے باوجود گوادر پورٹ کراچی اور پورٹ قاسم کے مقابلے میں بہت کم کارگو سنبھالتی ہے۔

گوادر کے ارد گرد صنعتی اور تجارتی انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی نے اسے ایک تجارتی مرکز کے طور پر ترقی کرنے سے روکے رکھا ہے۔ گوادر میں غیر ملکی دہشتگردوں اور علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں نے محنت کشوں اور ترقیاتی منصوبوں کو بار بار نشانہ بنایا ہے۔ سکیورٹی کے خطرات نے غیر ملکی سرمایہ کاروں اور شپنگ کمپنیوں کو گوادر پورٹ استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔

سی پیک سے منسلک کئی منصوبے، جیسے کہ سڑکیں، ریلوے لائنیں، اور بجلی گھر، جن کا مقصد گوادر کی ترقی تھا، تاخیر یا تعطل کا شکار ہیں۔ گوادر فری زون میں اب تک خاطر خواہ سرمایہ کاری نہیں ہو سکی، اور ناقص سڑکوں کا جال لاجسٹکس کی ترقی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ الطاف شکور نے افسوس کا اظہار کیا کہ چینی کمپنیاں بھی گوادر کے ارد گرد صنعتوں میں بڑی سرمایہ کاری سے گریزاں رہی ہیں۔

حکومت کی جانب سے بجلی، پانی اور سکیورٹی کی مناسب فراہمی نہ ہونے سے بھی سرمایہ کار بددل ہوئے ہیں۔اگرچہ گوادر اپنی گہرے پانی کی بندرگاہ اور اسٹریٹیجک لوکیشن کے باعث بڑی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن یہ اب تک اپنی معاشی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جب تک پاکستان اور چین سکیورٹی، انفراسٹرکچر، اور سرمایہ کاری کے مسائل کو حل نہیں کرتے، گوادر ایک غیر مؤثر اثاثہ ہی بنا رہے گا