افغان مہاجرین کی وطن واپسی علاقائی استحکام کے لیے خطرہ، یو این ایچ سی آر

یو این اتوار 13 جولائی 2025 21:30

افغان مہاجرین کی وطن واپسی علاقائی استحکام کے لیے خطرہ، یو این ایچ ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 جولائی 2025ء) پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان سے بڑی تعداد میں مہاجرین کی واپسی سے افغانستان میں وسائل پر بوجھ بڑھ گیا ہے اور وسیع تر علاقائی استحکام کو خطرات لاحق ہیں۔

ادارے نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال ہی دونوں ممالک سے 16 لاکھ افغانون نے واپسی اختیار کی جو قبل ازیں قائم کردہ اندازوں سے کہیں بڑی تعداد تھی۔

ان لوگوں کی آمد سے ملک کے سرحدی صوبوں پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے جو پناہ گزینوں کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس طرح ملک میں غربت، عدم تحفظ اور انسانی ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں جسے پہلے ہی معاشی انہدام اور انسانی حقوق کی پامالی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

'یو این ایچ سی آر' نے لاکھوں بے گھر افغانوں کی باوقار واپسی یقینی بنانے کے لیے تحمل اور تعاون پر زور دیا ہے۔

© IOM
اس سال مئی میں پاکستان سے وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کا ایک قافلہ۔

'نیا ملک' اور خدشات

افغانستان میں 'یو این ایچ سی آر' کے نمائندے عرفات جمال کا کہنا ہے کہ واپس آنے والے بہت سے پناہ گزین ایسے ہیں جن کی پیدائش بیرون ملک ہوئی تھی اور انہوں نے کبھی افغانستان نہیں دیکھا۔ اگرچہ وہ افغانی ہیں لیکن ان کی پرورش دیگر جگہوں پر اور مختلف ماحول میں ہوئی ہے اسی لیے ان کے لیے نئے ملک میں زندگی شروع کرنا مشکل ہو گا۔

واپس آنے والی خواتین اور لڑکیوں کے لیے مسائل کہیں زیادہ ہیں۔ بحیثیت پناہ گزین اپنے میزبان ممالک میں انہیں حقوق اور آزادی حاصل تھی جبکہ افغانستان میں طالبان حکام نے خواتین کے حقوق سلب کر رکھے ہیں۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ ایران کے ساتھ سرحدی راستے اسلام قلعہ سے روزانہ 50 ہزار افغان پناہ گزین واپس آ رہے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد تھکی ہاری، بیمار اور بے وسیلہ ہوتی ہے۔

ان میں بہت سے لوگون کو اچانک ملک چھوڑنا پڑا جس کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔

بہت سے لوگ رضاکارانہ واپسی بھی اختیار کر رہے ہیں۔ ان میں رجسٹرڈ و غیررجسٹرڈ دونوں طرح کے لوگ شامل ہیں۔ واپس آنے والوں کی بڑی تعداد کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں ان کی بہبود اور زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

امدادی وسائل کا بحران

اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار ایران اور پاکستان سے متصل افغان صوبوں میں ان پناہ گزینوں کو خوراک، پانی، طبی خدمات اور اپنے آبائی علاقوں میں جانے کے لیے نقل و حمل کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

تاہم امدادی وسائل کی قلت کے باعث ان کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ادارے نے بتایا ہے کہ رواں سال اسے ملک کے لیے درکار امدادی وسائل میں اب تک 28 فیصد ہی مہیا ہو پائے ہیں۔ ان حالات میں امدادی ادارے مدد کی فراہمی میں کمی کے مشکل فیصلوں پر مجبور ہیں۔

اقوام متحدہ کو افغانستان میں ایک کروڑ 70 لاکھ افراد کے لیے تمام امدادی اقدامات کی غرض سے رواں سال 2.4 ارب ڈالر درکار ہیں لیکن اب تک ان میں 22 فیصد وسائل ہی دستیاب ہو سکے ہیں۔

© UNHCR/Oxygen Empire Media Production
ایران سے بے دخل کیے گئے افغان مہاجر اپنے ملک کی سرحد پر پہنچ رہے ہیں۔

غربت اور خشک سالی

اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) نے ملک کے بیشتر حصے میں خشک سالی سے خبردار کیا ہے۔ 70 فیصد افغان انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بہت سی سرکاری خدمات کے خاتمے اور حقوق کی پامالیوں نے لاکھوں لوگوں کو مایوسی سے دوچار کردیا ہے۔

عرفات جمال نے کہا ہے کہ ان حالات میں پناہ گزینوں کی واپسی سے مقامی لوگوں میں مایوسی بڑھنے اور وسائل سے استفادے کے لیے مسابقت شروع ہونے کا خدشہ ہے جس سے سماجی بے چینی مزید بڑھ جائے گی۔

افغانستان کے لوگ کھلے دل کے مالک ہیں لیکن اس قدر بڑی تعداد میں لوگوں کو سنبھالنا ان کے بس کی بات نہیں۔

عالمی برادری سے اپیل

گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں افغانوں کو درپیش بگڑتے حالات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

دو کے مقابلے میں 116 ووٹوں سے منظور ہونے والی اس قرارداد میں طالبان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی جابرانہ پالیسیاں واپس لیں اور عالمی برادری افغان شہریوں کی مدد کے لیے تعاون مہیا کرے۔

قرارداد میں ایسے ہم آہنگ طریقہ ہائے کار کی ضرورت کو بھی واضح کیا گیا جن سے امدادی، ترقیاتی اور سیاسی کوششوں کو باہم جوڑا جا سکے جبکہ عطیہ دہندہ ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانوں کے لیے اپنی مدد کو برقرار رکھیں یا اس میں اضافہ کریں۔