کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جولائی2025ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے تحت غریب سائلین کو ریاست کے خرچ پر قانونی نمائندگی فراہم کی جائے گی، ضلعی قانونی بااختیاری کمیٹیوں کے ذریعے وکلاء کو 50,000 روپے تک معاوضہ دیا جائے گا،وفاقی حکومت کی جانب سے بار ایسوسی ایشنز کو فراہم کی جانے والی تمام سہولیات اور مدد کو مربوط اور منظم کیا جائے تاکہ وسائل کا مؤثر استعمال یقینی بنایا جا سکے،ہر صوبے میں ایک سینئر سطح کے نمائندے کو تعینات کیا جائے گا جو بار ایسوسی ایشنز میں آگاہی بڑھانے، مقامی ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کرنے اور بنیادی سطح پر جاری انصاف کے منصوبوں کی نگرانی کے لیے رابطہ کار کے طور پر کام کریں گے۔
(جاری ہے)
یہ بات انہوں نے پیر کو کوئٹہ میں لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے اعلیٰ سطح اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی اور چیئرمین لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان (LJCP) نے پیر کو سپریم کورٹ برانچ رجسٹری کوئٹہ میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس کا مقصد بلوچستان صوبے کی بار ایسوسی ایشنز اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے درمیان ادارہ جاتی روابط کا جائزہ لینا اور انصاف کی فراہمی کو بہتر بنانا تھا۔
اجلاس میں چیف جسٹس ہائی کورٹ آف بلوچستان جسٹس روزی خان، رجسٹرار ہائی کورٹ آف بلوچستان، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان میاں محمد رئوف عطا، امان اللہ، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی بلوچستان بار کونسل کوئٹہ، وائس چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی بلوچستان بار کونسل راحب بلیدی، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل یاسین آزاد، وائس چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل کوئٹہ طاہر وڑائچ، ممبر بلوچستان بار کونسل خلیل احمد پانیزئی، چیئرمین ایجوکیشن کمیٹی بلوچستان بار کونسل قاسم علی گاجیزئی، صدر بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن عطا اللہ خان لانگو کے ساتھ ساتھ وزارت قانون و انصاف، لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان، لاء ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری اور حکومت بلوچستان کے پلاننگ و ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے نمائندگان بشمول چیف اکنامسٹ نے شرکت کی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے انصاف کے شعبے میں ان کے کلیدی کردار کو سراہا۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ انہوں نے ہر صوبے کے دور افتادہ اضلاع کا دورہ کیا اور بار ایسوسی ایشنز اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے درمیان روابط میں خلا پایا، حالانکہ لاء کمیشن کے پاس فنڈز موجود تھے لیکن وہ ضلعی عدلیہ کی بہتری کے لیے مؤثر طور پر استعمال نہیں ہو سکے۔
بار ایسوسی ایشنز کی ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈنگ کی ضرورت ہے کیونکہ وہ عدالتی کمپلیکسز میں شامل ہیں۔ چونکہ لاء کمیشن کی رسائی محدود ہے، اس لیے کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر صوبے میں ایک سینئر سطح کے نمائندے کو تعینات کیا جائے گا جو ہائی کورٹس میں بیٹھیں گے۔ یہ نمائندگان ضلعی بار ایسوسی ایشنز میں آگاہی بڑھانے، مقامی ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کرنے اور جڑوں کی سطح پر جاری انصاف کے منصوبوں کی نگرانی کے لیے رابطہ کار کے طور پر کام کریں گے۔
بارز اپنے ترقیاتی منصوبے ضلعی ترقیاتی کمیٹیوں کے سامنے پیش کر سکتی ہیں۔ مزید برآں، وفاقی اور صوبائی ترقیاتی محکموں کے نمائندے بھی منصوبوں کی بروقت تکمیل اور وسائل کے دہرے استعمال سے بچاؤ کو یقینی بنانے کے لیے شامل کیے گئے ہیں۔چیف جسٹس نے ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بار نمائندوں پر زور دیا کہ وہ اپنی متعلقہ بار ایسوسی ایشنز کو ان پیش رفتوں کے بارے میں حساس بنائیں اور ان اصلاحاتی اقدامات میں فعال طور پر شریک ہوں۔
انہوں نے مزید ہدایت کی کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بار ایسوسی ایشنز کو فراہم کی جانے والی تمام سہولیات اور مدد کو مربوط اور منظم کیا جائے تاکہ وسائل کا مؤثر استعمال یقینی بنایا جا سکے۔چیف جسٹس نے صوبائی محکموں پر بھی زور دیا کہ وہ کمیشن کے ریزیڈنٹ ایڈیشنل سیکرٹری کے ساتھ فعال رابطے میں رہیں تاکہ ضلعی سطح کے منصوبوں کو بروقت اور مؤثر انداز میں نافذ کیا جا سکے۔
انہوں نے کم ترقی یافتہ اضلاع میں بنیادی ڈھانچے کی کمی، غیر مستقل بجلی کی فراہمی اور ڈیجیٹل انضمام کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا اور ان علاقوں میں ہدف شدہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔چیف جسٹس نے اعلان کیا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے زیرِ اہتمام ایک نیا اقدام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت غریب سائلین کو ریاست کے خرچ پر قانونی نمائندگی فراہم کی جائے گی، جو مجسٹریٹ عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک تمام سطحوں پر دستیاب ہوگی۔
ضلعی قانونی بااختیاری کمیٹیوں کے ذریعے وکلاء کو 50,000 روپے تک معاوضہ دیا جائے گا۔ اس کا مقصد تمام شہریوں کے لیے انصاف تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا ہے۔ بار ایسوسی ایشنز اس مقصد کے لیے اہل وکلاء کو ضلعی ججوں، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان کو نامزد کر سکتی ہیں۔چیف جسٹس نے بار نمائندوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے ارکان کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے جاری کردہ کنٹینیونگ لیگل ایجوکیشن (CLE) پروگرامز سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیں۔
انہوں نے ہدایت کی کہ تربیتی کیلنڈر کو بار ایسوسی ایشنز میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جائے تاکہ پیشہ ورانہ ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ بار ایسوسی ایشنز فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے ساتھ رابطے کے لیے فوکل پرسنز مقرر کر سکتی ہیں۔ انہوں نے لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے تحت حالیہ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں سے بھی آگاہ کیا۔
بار ایسوسی ایشن کے نمائندگان نے کمیشن کے مختلف اقدامات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے خدشات کو سنا گیا اور نوٹ کیا گیا جو اگلے اجلاس میں، جو کراچی میں ہوگا، مزید زیرِ بحث آئیں گے۔ انہوں نے غریب سائلین اور قانونی پیشہ وران کو درپیش چیلنجز کو تسلیم کرنے پر چیف جسٹس کا شکریہ ادا کیا۔ عطا اللہ خان لانگو، صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بلوچستان نے اجلاس کو صوبائی حکومت کی جانب سے صوبے بھر کی بار ایسوسی ایشنز کو فراہم کی جانے والی سہولیات سے آگاہ کیا، جن میں خواتین وکلاء کے لیے 100 اسکوٹیز، ہائی کورٹ بار میں ڈیجیٹل لائبریری، ہائی کورٹ سے ڈسٹرکٹ کورٹ کوئٹہ تک شٹل سروس، ہائی کورٹ بلوچستان کے وکلاء کے لیے 100 ایکڑ پر مشتمل ہاؤسنگ اسکیم اور وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کی 28 ضلعی بارز اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے لیے امداد شامل ہے۔
تمام وفاقی اور صوبائی اسٹیک ہولڈرز نے انصاف تک رسائی کو بہتر بنانے اور مؤثر بنانے کے مشترکہ مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے مکمل تعاون اور حمایت کا یقین دلایا۔