غزہ میں خوراک اور ادویات کی دستیابی یقینی بنانا اسرائیل کی ذمہ داری، فلیچر

یو این جمعرات 17 جولائی 2025 20:30

غزہ میں خوراک اور ادویات کی دستیابی یقینی بنانا اسرائیل کی ذمہ داری، ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 جولائی 2025ء) امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ غزہ میں لوگوں کو موت، زخموں، جبری نقل مکانی اور بے توقیری کا سامنا ہے اور ان کی بڑھتی ہوئی امدادی ضروریات کا جواب گولیوں سے نہیں دینا چاہیے۔

انہوں نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ کے حالات پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ خوراک اور طبی ادویات تک لوگوں کی رسائی کو یقینی بنائے لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔

Tweet URL

غزہ کے حالات کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا جہاں خوراک ختم ہو رہی ہے اور اس کے حصول کی تلاش میں نکلنے والے لوگوں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

طبی مراکز پر روزانہ بڑی تعداد میں ایسے زخمی لائے جا رہے ہیں جو اپنے گھرانے کے لیے معمولی سی خوراک لینے کی کوشش میں زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔

ٹام فلیچر نے مغربی کنارے کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں زندگی اور روزگار کا نقصان جاری ہے جبکہ لوگوں کی نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اور نقل مکانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ جب بھی ان حالات کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو امدادی اداروں کی شہریوں تک رسائی مزید محدود ہو جاتی ہے۔ غزہ میں میں سیکڑوں امدادی کارکنوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور جو لوگ تاحال اپنا کام کر رہے ہیں انہیں دیگر شہریوں کی طرح شدید بھوک، خطرات اور نقصان کا سامنا ہے۔

امدادی رسائی کے کڑے مراحل

ٹام فلیچر نے بتایا کہ امدادی آٹے کا تھیلا غزہ کے سرحدی راستے پر پہنچنے سے پہلے منظوری کے کئی مراحل سے گزرتا ہے جس کے بعد اس کا معائنہ ہوتا ہے اور پھر اسے اسرائیل کے ٹرکوں میں رکھا جاتا ہے۔

کیریم شالوم کی سرحد پر پہنچنے کے بعد عموماً ایک مرتبہ پھر اس کا معائنہ کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد یہ پہلے سے منظور شدہ فلسطینی ٹرکوں کے ذریعے غزہ میں بھیجا جاتا ہے جو اسرائیل کی سرحد کے متوازی باڑ والی سڑک کے ذریعے مختلف علاقوں میں جاتے ہیں۔ بعض اوقات امدادی خوراک کو سرحد پر فلسطینی علاقے میں اتارا جاتا ہے اور پھر اسے غزہ سے آنے والے کئی طرح کے ٹرکوں پر لاد دیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس طریقہ کار میں ٹرکوں کی گنتی عموماً درست نہیں ہوتی اور علاقے میں امداد لانے والے ٹرکوں کی حقیقی تعداد بتائی گئی تعداد سے کہیں کم ہوتی ہے۔ امدادی سامان لے جانے والے قافلوں کو اسرائیلی فوج کے ساتھ رابطے کے پیچیدہ عمل، جنگ، تباہ شدہ سڑکوں، فوجی چوکیوں پر طویل انتظار اور جرائم پیشہ جتھوں کے زیر تسلط علاقوں سے گزرنے جیسے مسائل اور خطرات کا سامنا رہتا ہے۔

امدادی خوراک کو محفوظ طریقے سے لوگوں میں تقسیم کرنا بھی غیریقینی ہوتا ہے کیونکہ بھوک کے ستائے لوگ اسے ٹرکوں سے اتار لیتے ہیں۔ اس طرح خوراک کا بڑا حصہ امدادی مراکز تک نہیں پہنچ پاتا اور اگر پہنچ بھی جائے تو تمام ضرورت مند لوگوں میں اس کی بڑے پیمانے پر تقسیم غیریقینی ہوتی ہے۔

بھوک کا ہتھیار

ٹام فلیچر نے کہا کہ اقوام متحدہ کے پاس بڑے پیمانے پر امداد کے حصول اور اس کی موثر تقسیم کا منصوبہ موجود ہے۔

اگرچہ ادارے کے امدادی کام کو نقائص سے سو فیصد پاک قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس کی بنیاد امدادی اصولوں پر ہے اور اس کے پیچھے کئی دہائیوں کا تجربہ ہے۔ اسی لیے اقوام متحدہ کو اپنا کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

انہوں نے سلامتی کونسل کے ارکان سے کہا کہ وہ یہ جائزہ لیں کہ آیا اسرائیل اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کر رہا ہے اور کیا امدادی کارکن اپنے کام کو کماحقہ انجام دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے اسرائیلی حکام کے حالیہ بیانات کا حوالہ بھی دیا جس میں ان کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینیوں کی 'امدادی شہر' میں منتقلی تک لوگوں کو بھوکا رکھنا قابل جواز ہو سکتا ہے۔

ٹام فلیچر نے کہا کہ بھوک سے دانستہ جنگی ہتھکنڈے کا کام لینا جنگی جرم ہے اور امدادی شہر کی تجویز امدادی اقدام نہیں ہے۔ شہریوں کو ہر جگہ تحفظ ملنا چاہیے، یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آنی چاہیے، امدادی کارکنوں کو حملوں کا ہدف نہیں بنانا چاہیے اور جنگ بندی عمل میں لائی جانی چاہیے۔

17 ہزار بچوں کی ہلاکت

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ غزہ میں 21 ماہ سے جاری جنگ میں 17 ہزار سے زیادہ بچے ہلاک اور 33 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ اس طرح روزانہ 28 بچے ہلاک ہوتے رہے ہیں۔ گویا دو سال سے روزانہ ایک کمرہ جماعت کی تعداد کے برابر بچے موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں پانی لینے کے انتظار میں کھڑے سات بچوں سمیت 10 افراد اسرائیل کے حملے میں ہلاک ہو گئے۔ آج ہی رفح میں غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مرکز پر بھگدڑ مچنے سے کم از کم 20 افراد کی ہلاکت ہوئی جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے بتایا ہے کہ 27 مئی اور 7 جولائی کے درمیان خوراک کے حصول کی کوشش میں کم از کم 798 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

محرومی اور ذہنی مسائل

کیتھرین رسل نے بتایا کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کی صورتحال بھی مزید بگڑ گئی ہے جہاں رواں سال اب تک اسرائیلی فورسز اور آبادکاروں کے حملوں میں 33 فلسطینی بچے ہلاک اور 23 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔

انہوں ںے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی جنگ کا نتیجہ بچوں کے لیے طویل محرومی اور ذہنی و نفسیاتی مسائل کی صورت میں نکلے گا۔ جنگ سے پہلے بھی علاقے میں نصف بچوں کو ذہنی صحت کی خدمات درکار تھیں اور اب تمام بچوں کو اس کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے بچے تباہ کن حالات میں جی رہے ہیں جنہیں شدید غذائی عدم تحفظ اور خوراک کی بدترین قلت کا سامنا ہے۔