اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جولائی 2025ء) پاکستان کے امیگریشن حکام کے مطابق سن 2019 سے 2024ء کے دوران 221 غیر ملکیوں نے پاکستانی شہریت حاصل کی، جن میں سب سے زیادہ تعداد یعنی 161 بھارتی شہریوں کی تھی۔ اگرچہ افغانستان اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے افراد کو بھی شہریت دی گئی لیکن بھارتی شہریوں کی تعداد نمایاں رہی۔ حکام کے مطابق سرحد پار شادیاں اور منقسم خاندان اس رجحان کی بنیادی وجوہات ہیں۔
پاکستانی شہریت حاصل کرنے کے قانونی تقاضے
پاکستان کے امیگریشن اینڈ پاسپورٹ حکام بتاتے ہیں کہ غیر ملکی شہری نیچرلائزیشن، رجسٹریشن، یا خصوصی حکومتی منظوری کے تحت پاکستانی شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔ نیچرلائزیشن کے لیے کم از کم پانچ سال کی قانونی رہائش، اچھی شہرت اور مقامی زبان پر عبور ضروری ہے۔
(جاری ہے)
پاکستانی مردوں سے شادی کرنے والی غیر ملکی خواتین رجسٹریشن کے آسان عمل کے ذریعے درخواست دے سکتی ہیں، جبکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی کچھ کیسز قابلِ غور ہوتے ہیں۔
تاہم ماہرین کے مطابق پاک-بھارت حساس تعلقات کے باعث بھارتی شہریوں کے لیے یہ عمل خاصا پیچیدہ اور طویل ہوتا ہے۔امیگریشن ماہر ایڈووکیٹ مصباح عزیز کیانی کے مطابق، ”پاکستان کی شہریت پالیسی مجموعی طور پر سخت ہے۔ مستقل شہریت کا حصول تو دور، محض عارضی رہائش کے اجازت نامے کے لیے بھی پیچیدہ مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔"
انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ایک بنگلہ دیشی نژاد برطانوی خاتون نے پاکستانی مرد سے شادی کے بعد شہریت کی درخواست دی، شہریت ملی تو سہی مگر کئی سال کی جدوجہد کے بعد، جس دوران وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہیں۔
دونوں حریف ملکوں کی لڑائی میں پھنسے کشمیری
پاکستان کی شہریت حاصل کرنے والے تنویر الحسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت کے باسیوں کے لیے پاکستان کی شہریت کا حصول نسبتاً آسان ہے، جبکہ پاکستانی شہریوں کے لیے بھارتی شہریت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اہلیہ کا پاسپورٹ صرف اس بنیاد پر منسوخ کر دیا گیا کہ وہ شادی کے بعد پاکستان آ گئی تھیں، حالانکہ وہ بھارتی شہری تھیں۔ وہ کہتے ہیں، ”بھارت کی یہ پالیسی ہزاروں کشمیریوں کو ان کے خاندانوں سے جدا کر چکی ہے۔"
جذباتی اور انسانی پہلو
تنویر الحسن، جو 1990ء میں مقبوضہ کشمیر سے پاکستان منتقل ہو گئے اور اب تقریباً 70 برس کے ہیں، کہتے ہیں، ”شہریت حاصل کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ میں پاکستانی شہری ہونے کے تمام حقوق تو رکھتا ہوں، مگر اپنی ماں، اپنے ورثے اور بچپن کی گلیوں کو پیچھے چھوڑنے کا دکھ کبھی نہیں مٹا۔
"انسانی حقوق کے علمبردار انصار برنی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ پاک-بھارت کشیدگی کا اصل بوجھ عام شہریوں پر پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بھارت میں بے سروسامانی کے عالم میں احتجاج کرتی دو سو سے زائد خواتین و بچوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”نہ بھارت انہیں شہریت دے رہا ہے، نہ پاکستان انہیں واپس قبول کر رہا ہے۔ یہ منقسم کشمیری اپنے والدین سے ملنے بھارت گئے تھے، مگر اب بے وطن ہو چکے ہیں۔
"نسیم بیگم (فرضی نام)، جو شادی کے بعد پاکستان آ گئی تھیں، ماضی میں بھارتی شہری تھیں اور باقاعدگی سے کشمیر میں اپنے والدین سے ملا کرتی تھیں۔ تاہم پلوامہ حملے کے بعد بھارتی سفارتخانے نے ان کی تمام ویزہ درخواستیں مسترد کر دیں۔ وہ کہتی ہیں، ”میری والدہ بستر مرگ پر تھیں۔ میں نے بار بار ویزہ مانگا، مگر انکار ہوا۔ وہ مجھے دیکھے بغیر دنیا سے چلی گئیں۔"