قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور ڈویژن کا اجلاس،غیر استعمال شدہ بجلی کی مد میں دی جانے والی بھاری کیپیسٹی پیمنٹس پر شدید تشویش کا اظہار

بدھ 23 جولائی 2025 21:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 جولائی2025ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور ڈویژن کا اجلاس چیئرمین محمد عاطف کی زیر صدارت میں منعقد ہوا۔اجلاس کے دوران پاور سیکٹر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پاکستان کی موجودہ بجلی کی نصب شدہ پیداواری صلاحیت 39,952 میگاواٹ ہے جس میں سے 46 فیصد صاف توانائی جبکہ 54 فیصد کا انحصار فوسل فیول (غیر قابل تجدید توانائی) پر ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ توانائی کے شعبے میں فوسل فیول پر غیر ضروری انحصار موجود ہے جس پر ارکان نے تشویش کا اظہار کیا۔کمیٹی نے اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو)، گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی (گیپکو) اور فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (فیسکو) کی مجوزہ نجکاری کا تفصیلی جائزہ لیا اور موجودہ انتخابی معیار پر سخت اعتراضات اٹھائے۔

(جاری ہے)

ارکان نے متفقہ طور پر اس طریقہ کار پر تنقید کی جس کے تحت صرف ان ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو نجکاری کے لیے چنا گیا ہے جن میں ترسیلی اور تقسیم کےنقصانات کم ہیں۔ کمیٹی نے خبردار کیا کہ اس پالیسی سے حکومت کو ناقص کارکردگی کی حامل کمپنیوں کو برقرار رکھنا پڑے گا، جو موجودہ مسائل کو مزید گھمبیر بنائے گا اور مستقبل میں ان کی نجکاری تقریباً ناممکن ہو جائے گی۔

پاور ڈویژن نے کمیٹی کو توانائی کے شعبے کی مکمل تصویر پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں بجلی کی پیداوار کی صلاحیت 39,952 میگاواٹ ہے۔ توانائی کے ذرائع کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ 54 فیصد بجلی فوسل فیول سے پیدا کی جا رہی ہے جبکہ صاف توانائی کا حصہ صرف 46 فیصد ہے جو باعث تشویش ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں اس وقت بجلی کی پیداوار میں تقریباً 7,000 سے 8,000 میگاواٹ کا فاضل (اضافی) فرق ہے۔

ارکان نے اس غیر استعمال شدہ بجلی کی مد میں دی جانے والی بھاری "کیپیسٹی پیمنٹس" پر شدید تشویش کا اظہار کیا جو قومی خزانے پر بھاری بوجھ ڈال رہی ہیں جبکہ ان کا عملی فائدہ کچھ نہیں۔اجلاس میں خیبر پختونخوا کے لیے ترقیاتی منصوبوں اور وفاقی بجٹ 2025-26 میں فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ کمیٹی نے نشاندہی کی کہ خیبر پختونخوا کی آبادی گلگت بلتستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، اس کے باوجود دونوں خطوں کو صرف دو، دو نئے منصوبے دیئے گئے ہیں جو کہ ناانصافی ہے۔

ترقیاتی بجٹ کی تفصیل کے مطابق بلوچستان کو 209.6 ارب روپے، پنجاب کو 76.6 ارب، سندھ کو 145.9 ارب جبکہ خیبر پختونخوا کو محض 30.843 ارب روپے دیئے گئے جس پر ارکان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔اقتصادی امور ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ اس نے متعلقہ عدالتی معاملات میں اپیلیں اور عبوری ریلیف کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جن کی سماعت جاری ہے اور اگلی پیشی ستمبر 2025ء میں مقرر ہے۔

اسی دوران ڈویژن نے وفاقی کابینہ سے نئے قانونی فریم ورک "فارن کنٹریبیوشنز (این جی اوز اور این پی اوز) ریگولیشن ایکٹ 2025" کی اصولی منظوری کی درخواست کی ہے تاکہ قانونی خلا کو دور کیا جا سکے۔اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی شاہد عثمان، محمد خان ڈاہا، بیگم تہمینہ دولتانہ، عمار احمد خان لغاری، زہرہ ودود فاطمی، ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ، سیدہ شہلا رضا، محمد جاوید حنیف خان، شاندانہ گلزار خان، صادق افتخار، شیر علی ارباب اور نسیم علی شاہ شامل تھے۔ اجلاس میں وزارت معاشی امور اور دیگر متعلقہ محکموں کے افسران نے بھی شرکت کی۔