عافیہ صدیقی کیس؛ وزیراعظم اور کابینہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ لٹک گیا

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے نوٹ سے پہلے ہفتہ وار روسٹر جاری ہو چکا تھا، کیس مقرر نہیں تھا جس کو سنا گیا اور آرڈر ہوا اب اس سے متعلق عدالتی آرڈر پر نوٹس کیسے بھجیں؟ رجسٹرار آفس ذرائع کا مؤقف

Sajid Ali ساجد علی جمعرات 24 جولائی 2025 14:35

عافیہ صدیقی کیس؛ وزیراعظم اور کابینہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 جولائی 2025ء ) اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عافیہ صدیقی کیس میں وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ لٹک گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رجسٹرار آفس اسلام آباد ہائی کورٹ سے وزیراعظم شہباز شریف اور وزرا کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ وقتی طور پر رک چکا ہے، اس حوالے سے رجسٹرار آفس ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے آفس سے 16 جولائی کو نوٹ آیا تھا کہ وہ 21 جولائی سماعت کریں گے لیکن جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے نوٹ سے پہلے ہفتہ وار روسٹر جاری ہو چکا تھا۔

رجسٹرار آفس ذرائع کا مؤقف ہے کہ اب اس میں ترمیم ہونا تھی اور پھر کاز لسٹ جاری ہونا تھی، کیس مقرر نہیں تھا جس کو سنا گیا اور آرڈر ہوا اب اس سے متعلق عدالتی آرڈر پر نوٹس کیسے بھجیں؟ اس پر مجاز اتھارٹی سے اس حوالے سے رائے لیں گے کیوں کہ ہم نے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی 21 جولائی کی سماعت کے حوالے سے 16 جولائی کے بعد مجاز اتھارٹی کو نوٹ لکھا تھا لیکن مجاز اتھارٹی کا جواب ابھی نہیں آیا، اس سلسلے میں کوئی جواب آئے گا تو ہی اس پر کچھ بتا سکیں گے۔

(جاری ہے)

بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں رپورٹ پیش نہ کرنے پر نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا تھا، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ’میری چھٹیاں شروع ہونی تھیں لیکن میں نے فوزیہ صدیقی کیس دیگر کیسز کے ساتھ مقرر کیا تھا، اب چھٹیاں ختم ہونے کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر کیس کی آئندہ سماعت ہوگی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کا روسٹر چیف جسٹس آفس ہینڈل کرتا ہے، حکومت نے سپریم کورٹ میں میرے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہوئی ہے‘۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا کہنا تھا کہ ’جج اگر چاہے تو چھٹیوں میں بھی کام نہیں کر سکتا، روسٹر تبدیل کرنے کے حوالے سے پرسنل سیکرٹری نے بتایا، میں نے پرسنل سیکرٹری کو کہا چیف جسٹس کو خط بھیج دو کیوں کہ آج چند کیسز مقرر تھے، فوزیہ صدیقی کا کیس الگ نوعیت کا ہے، میں نے کہا تھا رپورٹ نہ آئی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کروں گا‘، اس پر وکیل عمران شفیق نے کہا کہ ’اگر حکومت نے اسٹے لینا ہوتا تو ابھی بنچ بھی بن جاتا، ہمیں معلوم ہے کہ کیسے ہائیکورٹ چل رہی ہے، آپ کا آرڈر موجود ہے، کیس آپکی عدالت میں آج مقرر ہے‘۔

جج اسلام آباد ہائیکورٹ نے حیرت کا اظہار کیا کہ ’معلوم نہیں ابھی تک یہ کیس کیسے سپریم کورٹ میں نہیں لگا‘، وکیل عمران شفیق نے جواب دیا کہ ’سپریم کورٹ میں کیس نہیں لگے گا کیونکہ وہاں آج کل جسٹس منصور علی شاہ موجود ہیں، کیس تب لگے گا جب ججز کا روسٹر تبدیل ہو جائے گا‘، جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیئے کہ ’مجھے جمعرات کو بتایا گیا کازلسٹ جاری نہیں ہوگی جب تک کازلسٹ میں تبدیلی نہیں کی جاتی، چیف جسٹس کو درخواست پر دستخط کرنے کے لیے 30 سیکنڈ نہیں ملے، ماضی میں ججز کا روسٹر مخصوص کیسز کے فیصلوں کے لیے استعمال ہو چکا ہے، ایک بار پھر ایڈمنسٹریٹیو پاور کو جوڈیشل پاور کو روکنے کے لیے استعمال کیا گیا‘۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا کہنا تھا کہ ’میں انصاف کو شکست کا سامنا نہیں کرنے دوں گا، ہائیکورٹ کی عزت کو برقرار رکھنے کے لیے میں اپنی جوڈیشل پاورز کا استعمال کروں گا، وفاقی کابینہ کے ہر ممبر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتا ہوں، چھٹیاں ختم ہونے کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر کیس سماعت کے لیے مقرر کیا جائے‘۔