کراچی چیمبر کا شرح سود میں نمایاں کمی کا مطالبہ، صنعتی ترقی اور معاشی بحالی پر زور

اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی کا اعلان کرے اور اسے کم کرکے تقریباً 6 فیصد تک لائے،جاویدبلوانی

جمعہ 25 جولائی 2025 21:40

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جولائی2025ء) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد جاوید بلوانی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی کا اعلان کرے اور اسے کم کرکے تقریباً 6 فیصد تک لائے تاکہ پاکستان کے شرحِ سود کے نظام کو علاقائی معیشتوں کے مطابق بنایا جا سکے اور کاروباری لاگت میں اضافہ روک کر تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جا سکے۔

جمعہ کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں صدرکے سی سی آئی نے کہا کہ پاکستان کی شرحِ سود خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بلاجواز طور پر بہت زیادہ ہے، جس سے کاروباری طبقے پر شدید دباؤ ہے اور صنعتی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ویتنام میں شرح سود 6.3 فیصد، کمبوڈیا میں 3 فیصد، انڈونیشیا میں 6 فیصد، اور بھارت میں 5.5 فیصد ہے، جبکہ پاکستان میں کاروباری ادارے بہت زیادہ قرضے کی لاگت کے باعث سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔

(جاری ہے)

اسی طرح ہمارے ہاں بجلی کا ٹیرف تقریباً 16 سینٹ فی یونٹ ہے، جبکہ بنگلہ دیش میں 9 سینٹ، ویتنام میں 8 سینٹ، کمبوڈیا اور انڈونیشیا میں 10 سینٹ، بھارت میں 7.2 سینٹ، اور سری لنکا میں صرف 5 سینٹ ہے۔یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ مسابقت کے لحاظ سے پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔انہوں نے زور دیا کہ اسٹیٹ بینک کو فوری طور پر شرح سود کو 5 سے 6 فیصد تک کم کرنے پر غور کرنا چاہیے تاکہ کاروباری برادری، بالخصوص چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کو بہت ضروری ریلیف فراہم کیا جا سکے جو مہنگے قرضوں کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

جاوید بلوانی نے قرضے دینے کے نظام میں بنیادی اصلاحات کی بھی سفارش کی اور نشاندہی کی کہ اس وقت حکومت خود 75 فیصد سے زائد قرضے لے رہی ہے، جس کے باعث نجی شعبے کے لیے صرف 25 فیصد سے کم وسائل بچتے ہیں۔یہ عدم توازن پالیسی اصلاحات کے ذریعے دور کیا جانا چاہیے۔ کاروبار دوست شرح سود نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو فروغ دے گی، روزگار کے مواقع پیدا کرے گی، اور معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گی۔

انہوں نے اسٹیٹ بینک کی حالیہ مانیٹری پالیسی میں کمی کا عمل روکنے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے حکومت کے پہلے کیے گئے وعدوں سے متضاد قرار دیا۔وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا کہ 2024 کے اختتام تک شرح سود سنگل ڈیجٹ تک لائی جائے گی مگر 2025 کا آدھے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور شرح سود اب بھی دوہرے ہندسے میں موجود ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صرف شرح سود میں کمی ہی کافی نہیں۔

پاکستان صرف قرضوں کی لاگت کی وجہ سے غیر مسابقتی نہیں بلکہ بجلی، گیس، پانی کے زیادہ نرخ، بھاری ٹیکسز، بلند پورٹ چارجز اور خطے میں بلند ترین کم از کم اجرت جبکہ مزدوروں کی کارکردگی کم ہونا، یہ سب عوامل کاروبار کی لاگت کو بڑھاتے ہیں اور ان سب کا ازسرنو جائزہ ضروری ہے۔صدرکے سی سی آئی نے زور دیا کہ پاکستان کے صنعتی ان پٹ کی لاگت کو علاقائی سطح کے مطابق لانے کے لیے ایک جامع قومی حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔

اگر ہم واقعی برآمدات کو فروغ دینا اور سرمایہ کاری کو راغب کرنا چاہتے ہیں تویہ لازم ہے کہ ہمارے کچھ صنعتی اخراجات، جیسے توانائی کے نرخ، ٹیکس یا فنانسنگ، خطے کے مقابل ممالک سے کم ہوںتبھی ہم اپنی صنعتوں کو حقیقی برتری فراہم کر سکیں گے۔انہوں نے ناقابل برداشت بجلی نرخوں کے وسیع اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ صنعتوں کو سستی بجلی کی فراہمی کے ذریعے بجلی کے استعمال کو فروغ دے۔

حل صرف نئے صنعتی یونٹس کے قیام سے ہی ممکن ہے، جو صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب شرح سود اور دیگر اخراجات سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ہوں۔صدر کے سی سی آئی نے آخر میں مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک کاروباری برادری کے ساتھ مل کر ایسی پالیسیاں تشکیل دے جو صنعتی ترقی، برآمدات میں اضافے اور قومی معیشت کی بہتری کو یقینی بنائیں۔