نئے این ایف سی ایوارڈ کا فوری طور پر اعلان کیا جائے،میاں رضاربانی

منگل 5 اگست 2025 18:23

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اگست2025ء)پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کا فوری طور پر اعلان کیا جائے،وفاقی حکومت اور اس کے وزراء این ایف سی ایوارڈ اور 18 وین ترمیم کے سلسلے میں بیانات دیے رہے ہیں جوافسوسناک ہے۔وفاق کی جانب پیٹرولیم اور معدنیات کے حوالے کیے گئے تمام معاہدوں کو پارلیمان میں لایا جائے،وفاقی حکومت اپنے ممکنہ ریوینو شارٹ فال کو پورا کرنے کے لیے صوبوں سے مدد مانگنے کے بجائے اپنے اخراجات کو کم اور ٹیکس اصلاحات کرے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس میں کیا۔انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم کے ساتھ سازش ہونے جارہی ہے۔

(جاری ہے)

مرکز پسند ذہنیت نے اٹھارہویں ترمیم اور اختیارات و فزیکل منتقلی کو شروع دن سے تسلیم نہیں کیا ہے۔پندرہ سال سے زائد عرصہ گزرگیا نیا این ایف سی ایوارڈ وجود میں نہیں آسکا۔ موجودہ این ایف سی ایوارڈ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے کا اعلان کردہ ہے۔

اٹھارہویں ترمیم اپریل 2010 میں منظور ہوئی۔موجودہ این ایف سی ایوارڈ صوبوں کو ملنے والی وزارتوں کا احاطہ نہیں کرتا ۔آئین کے مطابق پانچ سال سے زیادہ کوئی پرانا این ایف سی نہیں چل سکتا۔پندرہ سال سے ساتواں این ایف سی ایوارڈ چل رہا ہے۔ گزرنے والی حکومتیں 1973 کے آئین کی خلاف ورزی کرتی رہیں۔انہوں نے کہا کہ آئین کی رو سے نئے این ایف سی ایوارڈ کی مالیت پرانے ایوارڈ سے کم نہیں ہوگی۔

صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد ہے نئے ایوارڈ کے تحت 57.5 سے کم حصہ نہیں ہوسکتا ۔3 اے آرٹیکل 160 آئین کی شق کی خلاف ورزی ہوگی۔وفاقی حکومت اور اس کے وزراء این ایف سی ایوارڈ اور 18 وین ترمیم کے سلسلے میں بیانات دیتے رہے جو افسوسناک ہے۔وزیر منصوبہ بندی پہلے این ایف سی پر نظر ثانی کے بیانات دیتے رہیانہوں نے کہا کہ میں نے 11 جولائی کو این ایف سی کے بارے میں وزیر اعظم کو خط لکھا ہے خط کا متن ہے کہ این ایف سی میں پرانے ایوارڈ سے کم مالیت کرنے کے بارے میں پوچھا ہے۔

پیٹرولیم لیوی کو قابل تقسیم پول سے نکال دیا گیا ہے۔اسے اب ڈیولپمنٹ لیوی کا نام دیا جاتا ہے ڈویز ایبل پول سے نکلنے پر صوبوں کو پیٹرولیم لیوی سے حصہ نہیں ملتا۔وفاقی حکومت بیرون ملک دوسرے ملکوں کے ساتھ پیٹرولیم اور منرلز کے بارے میں معاہدے کررہی ہے۔اس بات کا خیال نہیں رکھا جارہا آرٹیکل 172 کے تحت یہ بات واضح ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات معدنیات اور تیل کے 50 فیصد حصہ اس صوبے کا ہے جس میں دریافت ہوگا پچاس فیصد وفاق کا ہوگا۔

اب تک جو نئے معاہدے کیے گئے ان میں اس کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا ۔افسوس کی بات ہے کہ امریکی صدر کے ٹوئیٹ سے دونوں ملکوں میں پیٹرولیم کا معاہدہ کیا گیا ۔اس معاہدے کی کوئی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں ۔ان تمام معاہدوں کو پارلیمان میں لایا جائے اور اس پر پارلیمان میں تبادلہ خیال کیا جائی11 جولائی کو وزیر منصوبہ بندی نے وزیر اعظم کو خط لکھا اس کا عنوان Urgent need to review NFC awrad and re alignment of physical federalism ہی.رضا ربانی نے کہا کہ فزیکل فیڈریل ازم میں تبدیلی آئینی طور پر غلط اقدام ہوگا ۔

یہ خود اپنی نفی کرتا ہے ۔ایک جانب وفاق کو زیادہ فنڈز دینے کی بات ہے۔اسی خط میں کہا کہ صوبوں کی ڈیمنسٹڑیشن زمہ داریاں بڑھ گئی جس سے وفاق پر دبائو پڑ رہا ہے۔اگر صوبوں کی انتظامی زمہ داریاں بڑھ گئی ہیں تو لازم ہے کہ صوبوں کا حصہ مزید بڑھایا جائے۔رضا ربانی نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت کو کسی شارٹ فال کا سامنا ہے تو اس کی وجہ وفاقی حکومت کی اپنے وسائل بڑھانے میں ناکامی ہے .وفاقی حکومت کو ٹیکس اصلاحات کو بڑھانیاوراخراجات کو کم کرنے کی ضرورت ہی.اس وقت بھی بہت سی وزارتیں وفاق میں ہیں جو صوبوں کو منتقل ہوچکی ہیں.اگر کٹوتی کرنی ہے تو ڈیوالو ہونے والی وفاقی وزارتوں کو بند کیا جائی.انہوں نے کہا کہ اس خط میں وزیر نے عجیب بات کی کہ آزاد جموں کشمیر گلگت بلتستان اور فاٹا کے ضم شدہ ڈسٹرکٹ سمیت اسلام آباد کیپیٹل جو وفاقی کنٹرول میں ہیں ان کو وفاق سے فنڈ فراہم کرنا ہے۔

ان علاقوں کو خط میں صوبوں کی طرز پر ڈویز ایبل پول سے حصہ دینے کی تجویز دی۔آئین کے آرٹیکل 160 شق 2 کے تحت صرف چار صوبوں کا حصہ ڈیوز ایبل پول میں بنتا ہے۔کیا وزیر موصوف آئین میں ترمیم لانا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں ہوگا۔خط میں بے نظیر انکم سپورٹ کی بھی بات کی ہے جو وفاقی حکومت کا اقدام ہے اور وفاق کو ہی اس کی فنڈنگ کرنی ہے۔اس خط کے زریعے نئے این ایف سی ایوارڈ کو پرانے ایوارڈ سے کم کرنے کی آئینی قدغن ختم کرنے کی کوشش ہیوفاق کے اخراجات بڑھا کر صوبوں سے کہا جارہا ہے کہ وفاق کی مدد کریں ۔

ہم وفاق کی مدد کرنے تیار ہیں جس کا طریقہ کار یہ ہوسکتا ہے کہ وفاق تمام ٹیکس جمع کرنا بند کردے اور صوبوں کو ٹیکس وصولی کا اختیار دے دیا جائے۔بہت سے ملکوں میں صوبے ٹیکس جمع کرتے ہیں۔وفاق مشترکہ مفادات کی کونسل کے سامنے اپنا بجٹ پیش کرتا ہے۔مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بھی ڈیڑھ سال سے نہیں ہوا جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔۔رضا ربانی نے کہا کہ وفاق اپنا بجٹ صوبوں کے سامنے رکھے۔

صوبے وفاق کا بجٹ منظور کرکے ٹیکس وصولی سے وفاق کا بجٹ فنڈ کریں اور باقی خود رکھیں۔15 سال سے اوپر گزر گئے ۔نیا این ایف سی ایوارڈ فوری طور پر اعلان کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق سمندر کے معدنیات بھی پچاس فیصد صوبے کے ہوں گے پچاس فیصد وفاقی حکومت کے ہوں گے۔جتنے معاہدے ہورہے ہیں ان کو پارلیمان میں لاکر ان کو زیر بحث لاکر عوام کے سامنے لایا جائے۔پاکستان کو مشرق کی جانب توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔مغرب سے کافی تجربات ہیں۔پاکستان کے چین اور روس سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ اختیارات کی منتقلی صرف وفاق سے صوبوں تک محدود نہیں رہنے چاہئیں بلدیات کو بھی منتقل ہونے چاہئیں۔