کراچی میں تازہ خوراک کے لیے عمودی کاشتکاری کی ضرورت ہے،ماہرین

خوراک کا عدم تحفظ عالمی مسئلہ ہے، پروفیسر عطاالرحمن و دیگر مقررین کا جامعہ کراچی میں خطاب

بدھ 6 اگست 2025 21:39

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 اگست2025ء) ممتاز پاکستانی سائنسدان اور سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمن نے پاکستان اور دنیا بھر میں خوراک کے عدم تحفظ کے مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا عالمی غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے خشک سالی برداشت کرنے والی اور ماحولیاتی طور پر مزاحم فصلوں کی اہمیت کو اجاگر کیا، انھوں نے کہا عمودی کاشتکاری اور ماحولیاتی طور پر کنٹرول شدہ زراعت کے طریقوں سے کراچی جیسے گنجان آباد شہروں میں محدود جگہ کے باوجود تازہ خوراک کی مثر پیداوار ممکن ہے۔

یہ بات انھوں نے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس)، جامعہ کراچی کے تحت بدھ کو ''موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں خوراک اور غذائی تحفظ کے لیے پائیدار زراعت'' کے عنوان سے منعقدہ ایک منی سمپوزیم میں افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

اس منی سمپوزیم کا انعقاد سندھ انوویشن، ریسرچ، اینڈ ایجوکیشن نیٹ ورک (سائرن) اورآئی سی سی بی ایس جامعہ کراچی کے باہمی تعاون سے ایل ای جے نیشنل سائنس انفارمیشن سینٹر جامعہ کراچی میں ہوا۔

اس موقع پر آئی سی سی بی ایس جامعہ کراچی کے ڈائریکٹرپروفیسر ڈاکٹر محمد رضا شاہ، او آئی سی کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری، کنگ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی، سعودی عرب کے پروفیسرڈاکٹر سلیم الببلی، ڈاکٹر شاہد منصور اور ڈاکٹر فاروق احمد خان نے بھی خطاب کیا۔ پروفیسر عطاالرحمن نے بتایا کہ دنیا بھر میں خشک سالی برداشت کرنے والی اور ماحولیاتی طور پر مزاحم فصلوں کی مارکیٹ کا حجم2032تک52ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فصلیں عام طور پر جینیاتی طور پر ترمیم شدہ ہوتی ہیں تاکہ وہ موسمیاتی دبا کے باوجود بہتر پیداوار دے سکیں۔ انہوں نے کہاکراچی کو پانی کی قلت، شدید گرمی کی لہروں اور غیر متوقع موسموں کا سامنا ہے لہذا عمودی کاشتکاری اس شہر کے لیے ایک طاقتوراور موثر موقع ہے، عمارتوں کی چھتوں کو اس قسم کی زراعت کے لیے مثر طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پروفیسر اقبال چوہدری نے خوراک اور غذائیت کے عالمی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ2023میں دنیا بھر میں 733ملین افراد بھوک کا شکار رہے، جو کہ ہر11میں سے ایک شخص کے برابر ہے، جبکہ افریقہ میں ہر5میں سے ایک شخص متاثر ہوا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ او آئی سی رکن ممالک میں2020میں تقریبا203ملین افراد غذائی قلت کا شکار تھے، جو دنیا بھر کے غذائی قلت کا شکار افراد کا28فیصد اور او آئی سی آبادی کا11.2فیصد بنتے ہیں۔

پروفیسر رضا شاہ نے غیر ملکی مقررین کی شرکت پر شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ یہ سمپوزیم شرکا کو ماحولیاتی تبدیلی کے منظرنامے میں پائیدار زراعت کی اہمیت کو سمجھنے میں مدد دے گا۔ انہوں نے آئی سی سی بی ایس کی تاریخ اور ترقی پر بھی ایک تفصیلی پریزنٹیشن دی اور بتایا کہ ادارہ ایک عمارت سے شروع ہو کر اب17عمارتوں پر مشتمل ہو چکا ہے۔پروفیسر سلیم الببلی نے پودوں کے میٹابولزم کو زرعی حل میں تبدیل کرنے پر لیکچر دیا۔

انہوں نے سب صحارا افریقہ میں اسٹریگانامی جڑی بوٹی کے مسئلے پر روشنی ڈالی جو اناج کی فصلوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی مرکز کی تحقیقاتی سہولیات اور سمپوزیم کے عمدہ انتظامات کی تعریف کی۔ ڈاکٹر شاہد منصور نے کہا کہ بھوک اب بھی دنیا کے مہلک ترین مسائل میں سے ایک ہے، جو ایڈز، ملیریا اور تپ دق جیسے امراض سے زیادہ اموات کا سبب بنتی ہے۔ ڈاکٹر فاروق احمد خان نے بھی سمپوزیم میں لیکچر دیا اور خوراک و غذائیت کے تحفظ پر تفصیلی گفتگو کی۔