اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اگست 2025ء) بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے منگل کے روز نئی دہلی میں چین کے وزیرِ خارجہ وانگ ژی کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ''مسلسل پیش رفت‘‘ ہوئی ہے۔
مودی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں کہا، ''گزشتہ سال کازان میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد سے بھارت اور چین کے تعلقات میں باہمی مفادات اور حساس امور میں جذبات کے احترام کی بنیاد پر مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا،''بھارت اور چین کے درمیان مستحکم، قابلِ اعتماد اور تعمیری تعلقات خطے اور دنیا میں امن و خوشحالی کے لیے اہم کردار ادا کریں گے۔‘‘
وانگ کا یہ دورہ ان ایٹمی طاقت رکھنے والے ایشیائی ممالک کے درمیان برسوں کی کشیدہ تعلقات کے بعد ہوا۔
(جاری ہے)
پروازیں بحال، تجارتی تعلقات میں توسیع
منگل کے روز دونوں ایشیائی طاقتوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ براہِ راست پروازیں دوبارہ شروع کی جائیں گی اور تجارت و سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ کشیدہ تعلقات کو بہتر بنایا جا سکے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ پروازیں، جو 2020 سے معطل تھیں، دوبارہ شروع ہوں گی۔ تاہم اس کے لیے تاریخ کا اعلان ابھی نہیں کیا گیا۔
بھارت نے یہ بھی کہا کہ سرحدی تجارت تین مقامات پر دوبارہ کھولی جائے گی اور ویزا قوانین میں نرمی کی جائے گی۔
مودی کا دورۂ چین اگست کے آخر میں
ژی کی مودی سے ملاقات کے دوران بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول بھی موجود تھے۔
ڈوول نے کہا کہ مودی 31 اگست کو تیانجن میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔انہوں نے کہا، ''ہمارے وزیرِ اعظم ایس سی او سربراہی اجلاس کے لیے تشریف لے جائیں گے‘‘ اور سفارتی تعلقات میں ''نئی توانائی‘‘ کا ذکر کیا۔
یہ سات سال میں پہلا موقع ہو گا کہ بھارتی وزیرِ اعظم چین کا دورہ کریں گے۔
ایک سرکاری مترجم کے مطابق وانگ نے کہا کہ چین ''مودی کے ایس سی او اجلاس میں دورے کو بہت اہمیت دیتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''تاریخ اور حقیقت ایک بار پھر ثابت کرتی ہے کہ صحت مند اور مستحکم چین-بھارت تعلقات دونوں ممالک کے بنیادی اور طویل مدتی مفاد میں ہیں۔‘‘
بھارت-چین تعلقات کی بحالی کب شروع ہوئی؟
دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک بھارت اور چین کے تعلقات اکثر کشیدگی اور جنوبی ایشیا میں اثر و رسوخ کی رقابت سے متاثر رہے ہیں۔
سن دو ہزار بیس میں کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب ایک سرحدی جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی اور 4 چینی فوجی مارے گئے۔ اس واقعے نے اعلیٰ سطحی سیاسی روابط کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا۔
بیجنگ اور نئی دہلی کے درمیان برف پگھلنے کا عمل گزشتہ اکتوبر میں اُس وقت شروع ہوا جب مودی اور چینی صدر شی جن پنگ نے روس میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اجلاس میں ملاقات کی۔
یہ 2019 کے بعد دونوں رہنماؤں کی پہلی باضابطہ گفتگو تھی۔منگل کی بات چیت میں سرحدی مسائل پر بھی غور کیا گیا، جن میں ہمالیہ کے محاذ پر فوجیوں کی واپسی، سرحدی تعین اور دیگر امور شامل تھے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق، پیر کے روز وانگ نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں سامنے آنے والی رکاوٹیں دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا، ''ہم اس بات سے خوش ہیں کہ اب سرحدوں پر استحکام بحال ہو چکا ہے۔
‘‘ٹرمپ ٹیرفس اور بھارت-چین تعلقات
بھارت اور چین کے تعلقات کی بحالی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت تجارتی پالیسی نے نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان تناؤ میں اضافہ کیا ہے، جس میں بھارت پر بھاری محصولات عائد کیے گئے ہیں۔
بھارت طویل عرصے سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے اور ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کے مقابلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اس سال بھارت اور چین دونوں نے سرکاری دوروں میں اضافہ کیا اور تجارتی پابندیوں میں نرمی پر بات چیت کی، ساتھ ہی شہریوں اور کاروباری افراد کے ویزوں میں سہولت فراہم کرنے پر زور دیا۔
گزشتہ ہفتے بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے وضاحت کی کہ بھارت اور چین 3,488 کلومیٹر طویل سرحد کے تین علاقوں سے تجارت دوبارہ شروع کرنے پر بات چیت کر رہے ہیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ