yسٹار پینل کی جانب سے توسیع کی درخواست پر کاروائی کرتے ہوئے توسیع دی گئی اسکے باوجود من گھڑت اور تنظیم دشمن انتشار پر مبنی بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں جوکہ حقائق کے برعکس ہے، سکندر لہڑی

بدھ 20 اگست 2025 21:10

[!کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 اگست2025ء) آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن بلوچستان کے سینئر نائب صدر سکندر لہڑی نے کہا ہے کہ سٹار پینل کی جانب سے توسیع کی درخواست پر کاروائی کرتے ہوئے توسیع دی گئی اسکے باوجود من گھڑت اور تنظیم دشمن انتشار پر مبنی بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں جوکہ حقائق کے برعکس ہے۔ بیان میں کہا ہے کہ ملازمین تنظیموں کو ایک خاص ایجنڈے کے تحت انکے درمیان موجود چند شرپسند و مفاد پرست عناصر کو استعمال کیا جارہا ہے اس کی مثالیں ماضی میں بھی موجود ہیں مگر تنظیم دوست ساتھیوں نے ہمیشہ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکے ان ناپاک عزائم کو ناکام بنایا ہے۔

پریس کانفرنس میں اٹھائے گئے سوالات کی جانب ذاتی آنا کی تسکین کے لیے یونٹ سے لیکر صوبے تک قابض ہونا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ الزام بے بنیاد ہے۔ پوری پریس کانفرنس بے ربط اور منفی پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔ آئین کی کسی شق کا حوالہ نہیں دیا گیا کہ تنظیم پر قابض کون اور کس طرح ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 35 سالوں میں پہلی بار صوبائی قیادت پولنگ کے ذریعے منتخب ہوئی۔

صوبے کے سات ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں بھی باقاعدہ پولنگ کرائی گئی۔ اگر پولنگ کے ذریعے منتخب ہونا "قبضہ" کہلائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیادت کس طریقے سے منتخب کی جانی چاہیی یونٹس اور اضلاع کے انتخابات بھی مکمل طور پر آئین کے مطابق جاری ہیں۔اجتماعی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینا۔اگر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی تو تنظیم کبھی الیکشن کی طرف نہ جاتی بلکہ چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں قیادت بند کمروں میں تقسیم ہوجاتی۔

انتخابات ہی اس بات کا ثبوت ہیں کہ اجتماعی مفاد کو ترجیح دی گئی ہے۔الیکشن ٹریبونل کا نہ ہونا۔آئین کے مطابق الیکشن ٹریبونل ہمیشہ انتخابات کے بعد قائم کیا جاتا ہے تاکہ اپیل یا اعتراضات سنے جاسکیں۔ خود پریس کانفرنس میں بھی مطالبہ کیا گیا کہ انتخابات کے بعد ٹریبونل بنایا جائے، لیکن تضاد یہ ہے کہ پہلے ہی اس کے قبل قیام کا مطالبہ کردیا گیا۔

مزید یہ کہ فروری 2025 میں ضلع کوئٹہ کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوا، اس میں آئین کے تحت اعتراض کا حق دیا گیا لیکن اسٹار پینل نے اس وقت کوئی اعتراض اس حوالے سے داخل نہیں کیا۔الیکشن کی فیس کا بینک میں جمع نہ ہونا اور کرپشن کی نظر ہونا۔ماضی کا حوالا دیا گیا کیا بہتر نہ ہوتا کہ ماضی کے کسی بنک اکائونٹ کا حوالہ بھی دیا جاتا یا کوئی بینک اکائونٹ تھا اور اس کو موجودہ قیادت نے بند کیا ہو تو ثبوت پیش کیا جائے۔

یہاں حقائق دراصل اسکے برعکس ہے موجودہ قیادت تنظیم کو آئین کے دائرہ کار میں لارہی ہے اور ایپکا ضلع کوئٹہ کے زمین کے نام پر چندوں کے حوالے سے چھان بین شروع کی گئی آئین کے تحت انتخابات کروائے آئین کے تحت رکن سازی کا آغاز کیا جو شاہد چند مفاد پرست عناصر کو راس نہیں آرہا ہے ۔ جہاں تک چندو کی بات ہے تو اسٹار پینل کے اراکین نے چندے اور فنڈز کا الزام تو لگایا لیکن خود بطور ثبوت کوئی رسید یا حساب کتاب پیش نہیں کیا۔

بہتر ہوگا کہ پہلے یہ بتایا جائے کہ انہوں نے تنظیم کو اب تک کتنا چندہ دیا ہے۔ضلعی انتخابات میں دو ماہ کا عرصہ دیا جانا چاہیے۔یہ بات بھی تضاد پر مبنی ہے۔ اس سے قبل انہی حضرات نے تحریری طور پر صرف ایک ماہ کی توسیع کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کی تحریر موجود ہے جس پر صوبائی سیکریٹری جنرل اور مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے باقاعدہ نشست کی اور ایک ماہ کی توسیع کی سفارش کی جس پر عمل بھی ہوا۔

بعد ازاں پریس کانفرنس میں دو ماہ کا مطالبہ کرکے انتشار پیدا کیا گیا۔ضلعی کابینہ کو غیر آئینی طور پر بحال کرنا۔فروری سے اگست تک اسٹار پینل کی جانب سے انتخابات پر عدالتوں سے بار بار حکم امتناع (Stay Order) لیا گیا۔ اس دوران تنظیمی امور کو جاری رکھنے کے لیے کابینہ کو فعال رکھا گیا تاکہ یونٹس اور اضلاع کے مسائل متاثر نہ ہوں۔ضلعی امیدواروں میں چار امیدواروں کا غیر آئینی طور پر شامل ہونا۔

اس معاملے پر عدالت نے اسٹار پینل کا حکم امتناع خارج کیا اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے الزامات بے بنیاد تھے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد بار بار اعتراض اٹھانا نہ صرف عدلیہ بلکہ تنظیمی اداروں کی توہین ہے۔چیف الیکشن کمشنر کی سرکاری سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد کام کرنا غیر آئینی ہے۔یہ الزام بھی جھوٹ پر مبنی ہے۔

آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جو الیکشن کمشنر کو ریٹائرمنٹ کے بعد خدمات سرانجام دینے سے روکتی ہو۔ اگر ایسی کوئی پابندی ہوتی تو الزام لگانے والے آئینی حوالہ ضرور دیتے۔عدالت نے صوبائی کابینہ کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روکا اس کے باوجود وہ گرینڈ الائنس کے سیکریٹری جنرل ہیں۔یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس پر بحث کرنا توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔

تاہم گرینڈ الائنس کو اس مسئلے میں شامل کرنا صرف بددیانتی اور منفی پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔الیکشن ٹریبونل الیکشن کرانے کے فوری بعد قائم کیا جائے۔یہ بھی کھلا تضاد ہے۔ ایک طرف انتخابات سے قبل ٹریبونل بنانے کا مطالبہ کیا گیا، دوسری طرف کہا گیا کہ انتخابات کے بعد قائم کیا جائے۔ آئین واضح طور پر اجازت دیتا ہے کہ ٹریبونل انتخابات مکمل ہونے کے بعد قائم ہوتا ہے۔اب ایک جانب انتخابات کی راہ میں روکاوٹ ڈالنا انتخابات سے راہ فرار اختیار کرناہی