Live Updates

سپریم کورٹ نے میرٹ پر آبزرویشن دی تو ٹرائل متاثر ہو گا. جسٹس یحییٰ آفریدی

موقع پر موجودگی کے حوالے سے واضح جواب نہیں دے سکتا‘ عمران خان تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہے.سپیشل پراسیکیوٹر پنجاب‘ عمران خان دو ماہ تک ضمانت پر تھے کیا یہ عرصہ پولیس کو تفتیش کے لیے کافی نہیں تھا ؟.چیف جسٹس اور جسٹس حسن رضوی کے سماعت کے دوران ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 21 اگست 2025 17:14

سپریم کورٹ نے میرٹ پر آبزرویشن دی تو ٹرائل متاثر ہو گا. جسٹس یحییٰ آفریدی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اگست ۔2025 )سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف نو مئی کے 8 مقدمات میں اپیلوں کی سماعت کے دوران اعلی عدالت نے اہم ریمارکس دیے دوران سماعت جب پراسیکیوٹر کے دلائل سے عدالت مطمئن نہ ہو پائی تو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ نے میرٹ پر آبزرویشن دی تو ٹرائل متاثر ہو گا.

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا کہ میرٹ پر جائیں گے تو عمران خان کے وکیل سلمان صفدر بھی بات کریں گے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ میرا کام آپ کو متنبہ کرنا تھا باقی جیسے آپ بہتر سمجھیں جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفقار کیا کہ کیا اعجاز چوہدری نو مئی کو موقع پر موجود تھے؟ جس پر پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ موقع پر موجودگی کے حوالے سے واضح جواب نہیں دے سکتا عمران خان تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہے.

چیف جسٹس نے استفقار کیا کہ آپ دیگر ملزمان اور عمران خان کے مقدمے میں فرق بتائیں سپیشل پراسیکیوٹر پنجاب نے عدالت کے روبرو بتایا کہ عمران خان کے خلاف زبانی اور الیکٹرانک ثبوت موجود ہیں جسٹس حسن رضوی نے استفسار کیا کہ واقعے کے بعد گرفتاری تک عمران خان دو ماہ تک ضمانت پر تھے کیا یہ عرصہ پولیس کو تفتیش کے لیے کافی نہیں تھا جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ پولیس نے پولی گرافک سمیت تین ٹیسٹ کے لیے مجسٹریٹ سے رجوع کیا عدالت کی اجازت کے باوجود عمران خان نے ٹیسٹ نہیں کرائے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر ایسا ہے تواس کے قانونی نتائج ہوں گے.

دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ8مقدمات میں ضمانت کے باوجود دیگر مقدمات کی وجہ سے سابق وزیر اعظم کی جیل سے رہائی تاحال ممکن نہیں ہے عمران خان کے خلاف درجنوں کیسز زیر سماعت ہیں جن میں سے کچھ میں انہیں سزائیں ہو چکی ہیں جبکہ کئی کیسز زیر سماعت ہیں. رواں برس جنوری میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاﺅنڈ کے مقدمے میں سنائے گئے فیصلے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو 14 برس جبکہ ان کی اہلیہ بشری بی بی کو سات برس قید کی سزا سنائی تھی جن کے خلاف عمران خان اور بشری بی بی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے‘اسی طرح عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں عدالت سے تین سال کی سزا کے بعد عمران خان کو پانچ اگست 2023 کو لاہور میں عمران خان کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا یہ کیس بھی اعلی عدالت میں زیر سماعت ہے.

تحریک انصاف کی قانونی ٹیم اور قیادت سپریم کورٹ کی جانب سے آج 8مقدمات میں درخواست ضمانت منظور ہونے کے بعد پرامید ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو باقی مقدمات میں بھی عدالتوں سے ریلیف ملے گا‘تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جن کیسوں میں سزاسنائی جاچکی ہے ان میں اپیلوں کی درخواستوں پر فیصلے وقت لے سکتے ہیں ‘ہائی کورٹ اگر ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کو برقراررکھتی ہیں تو عمران خان کو سپریم کورٹ جانا پڑے گا اس سارے عمل میں سالوں لگ سکتے ہیں ‘انہوں نے کہاکہ ماضی کے مقدمات میں اپوزیشن اور حکومتی جماعتوں کے درمیان معاملات کو طے کرکے مقدمات کی پیروی کو سست کردیا جاتا تھا جس کے نتیجے میں لوئرکورٹس کی جانب سے ضمانتوں یا بریت کو حکومت اعلی عدالتوں میں چیلنج نہیں کرتی تھی .

انہوں نے مسلم لیگ نون‘پیپلزپارٹی کی باہمی مقدمے بازی اور جنرل مشرف کے دور حکومت میں نوازشریف اور ان کی جماعت کے خلاف مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اگر ماضی کے ان سیاسی مقدمات میں جائزہ لیا جائے تو دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات میں ایک حد سے آگے نہیں گئیں اسی طرح مشرف دور میں نوازشریف ان کے خاندان کے افراد اور قریبی ساتھیوں پر سنگین نوعیت کے مقدمات ہونے کے باوجود معاملات طے پانے کے بعدٹرائل کورٹ کے فیصلے کو ہی کافی سمجھا گیا.

انہوں نے دعوی کیا کہ اسی طرزکا ایک معاہدہ نومبر2024میں موجودہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان طے پانے جارہا تھا تاہم تحریک انصاف کے اندر ایک گروپ نے عمران خان پر دباﺅ ڈالا کہ وہ معاہدے کو قبول نہ کریں جس کے بعد پی ٹی آئی نے تحریک چلانے کا اعلان کیا ‘پارٹی کے اندر معاہدے کونہ ماننے والے گروپ کا خیال تھا کہ احتجاجی تحریک کے ذریعے دباﺅ ڈال کر حکومت کو عمران خان کی رہائی پر مجبور کیا جائے گا تاہم پی ٹی آئی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکی اور پارٹی کے مزید راہنماﺅں نے علیحدگی اختیار کرلی.

انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان رہائی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے اور اپوزیشن لیڈرکے عہدے کا معاہدہ کرتے ہیں تو سیاسی لحاظ سے یہ ایک اہم فیصلہ ہوگا ان کے جیل میں رہنے سے پارٹی کارکنوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے جوکہ کسی بھی جماعت کے ووٹ بنک کے لیے اچھا اشارہ نہیں‘سابق وزیراعظم کو چاہیے کو وہ سیاسی مذکرات کے ذریعے جیل سے باہر آنے اور اپوزیشن لیڈرکے عہدے تک پہنچنے کا راستہ صاف کریں .

انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ بھی قومی اسمبلی سے استعفوں‘پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑنے کے فیصلوں کی طرح جذباتی فیصلہ ہے اگر تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان سیاسی لوگوں کے مشوروں پر عمل کرتے اور صوبائی اسمبلیوں کو نہ توڑتے تو انہیں گرفتار کرنا‘جیل میں رکھنا اور پارٹی کو عام انتخابات سے مکمل طور پر آﺅٹ کردینا ممکن نہ ہوتا کیونکہ پنجاب اور کے پی کے جیسے اہم صوبوں میں ان کی جماعت کی حکومت تھی . 
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات