آڈیٹر جنرل کا وفاقی حکومت کے ماتحت محکموں میں 3750 کھرب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں اور مالی بدانتظامی کا انکشاف

بجٹ مینجمنٹ میں بڑے پیمانے پر بے ضطگیاںہوئیں‘ اضافی گرانٹس کی غیر ضروری الاٹمنٹ‘ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر بھاری اضافی گرانٹس کا اجراءاور ضرورت کے بغیر اضافی بجٹ کا مطالبات سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا ‘عوامی فنڈز کا صرف 13 فیصد عوامی فلاح پر خرچ ہوا.رپورٹ میں انکشافات

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 22 اگست 2025 14:42

آڈیٹر جنرل کا وفاقی حکومت کے ماتحت محکموں میں 3750 کھرب روپے سے زائد کی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اگست ۔2025 )آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت محکموں و اداروں کے امور میں 3750 کھرب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں، مالی بدانتظامی اور قومی خزانے کو نقصان کی نشاندہی کی ہے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے رپورٹ کے مطابق اے جی پی نے سخت تشویش ظاہر کی کہ عوامی فنڈز کا صرف 13 فیصد عوامی فلاح پر خرچ ہوا جس نے ملک کے مالیاتی امور پر سنگین سوالات کھڑے کردیے.

(جاری ہے)

ڈان نیوز نے اے جی پی کی آڈٹ رپورٹ سال 25-2024 کے حوالے سے بتایا ہے کہ وفاقی حکومت کے اکاﺅنٹس، بشمول وزارتوں، ڈویڑنز اور دیگر حکومتی اداروں کے مالی سال 2024 کے حسابات کا جائزہ لیا رپورٹ میں کہا گیا کہ ان بے ضابطگیوں کا بار بار سامنے آنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یا تو نگرانی کا نظام ناکافی ہے یا اندرونی کنٹرول کے ڈھانچے میں خامیاں ہیں رپورٹ میں اضافی گرانٹس کی غیر ضروری الاٹمنٹ، عوامی فنڈز کا بلاک ہونا، پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر بھاری اضافی گرانٹس، ضرورت کے بغیر بجٹ کا مطالبہ اور بعد میں اس کی واپسی، وقت پر فنڈز واپس نہ کرنے سے ان کا ضائع ہوجانا اور مالی وعدوں کو ریکارڈ نہ کرنے جیسے مسائل کی نشاندہی کی گئی جس سے بجٹ مینجمنٹ کمزور رہی.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اخراجات کا 96.26 فیصد عام عوامی خدمات پر خرچ ہوا جس میں 86.69 فیصد قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی پر صرف ہوا (23-2022 میں یہ شرح 91.42 فیصد تھی) یوں وفاقی حکومت کے پاس سماجی و معاشی کاموں کے لیے محض 13.31 فیصد فنڈز بچے، جو پچھلے سال کے 8.58 فیصد سے کچھ زیادہ ہے اہم آڈٹ نکات میں 2841 کھرب 70 ارب روپے کی خریداری سے متعلق بے ضابطگیاں، 856 کھرب روپے کے ناقص نامکمل یا تاخیر سے ہونے والے ترقیاتی کام، اور 25 کھرب روپے کی وصولیوں و ریکوری سے متعلق مسائل شامل ہیں دیگر نکات میں 12 کھرب 28 ارب روپے کے گردشی قرض کے تصفیے نہ ہونا، 958 ارب روپے کی قانون و ضوابط کی خلاف ورزیاں، 677.5 ارب روپے کے کمزور اندرونی کنٹرول، 628 ارب روپے کی ناقص اثاثہ جاتی مینجمنٹ اور 281 ارب روپے کی ناقص معاہدہ جاتی مینجمنٹ شامل ہیں.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 165 ارب روپے کی متفرق مالی بے ضابطگیاں، 73 ارب روپے کی ’ویلیو فار منی اور سروس ڈلیوری سے متعلق مسائل، اور 92 ارب روپے کا نقصان حکومت کے حصے کی وصولی نہ ہونے اور سرکاری زمین پر قبضے کے باعث سامنے آیا رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ کئی حکومتی اداروں کے اندرونی آڈٹ سیٹ اپ موجود ہیں لیکن موجودہ آڈٹ میں سامنے آنے والی بے ضابطگیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ نظام موثر طریقے سے کام نہیں کرسکا.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اندرونی آڈٹ موثر طریقے سے چلتا تو انتظامیہ کو کنٹرول بہتر کرنے اور اداروں میں مالی نظم قائم رکھنے میں مدد ملتی آڈٹ تجزیے میں پائی جانے والی خامیوں اور کمیوں کو اکاﺅنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو (اے جی پی آر)، کنٹرولر جنرل آف اکاﺅنٹس (سی جی اے)، وزارت خزانہ، اور متعلقہ وزارتوں و ڈویڑنز کے پرنسپل اکاﺅنٹنگ افسران کے ساتھ شیئر کیا گیا تاکہ درستی کے اقدامات کیے جاسکیں رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2024 کے لیے 29 فیصد (513.87 ارب روپے) اضافی گرانٹس پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر جاری کی گئیں، جو غیر مجاز اقدام تھا، 12 گرانٹس کے تحت بچت کو واپس نہ کرنے سے 212.08 ارب روپے ضائع ہوگئے جبکہ 12.6 ارب روپے کے اخراجات منظور شدہ گرانٹس سے زیادہ تھے.

رپورٹ کے مطابق مالی سال 24-2023 کے لیے کل بجٹ 465 کھرب 70 ارب روپے تھا، تاہم کٹوتی اور اضافی گرانٹس کے بعد یہ 403کھرب15 ارب رہ گیا، اصل اخراجات 399کھرب 45 ارب روپے رہے، جس میں 369.97 ارب روپے (0.92 فیصد) کی بچت سامنے آئی جو حتمی بجٹ سے کم تھی مجموعی طور پر وفاقی حکومت نے 17کھرب 65 ارب روپے کی اضافی گرانٹس منظور کیں، جن میں سے 513.87 ارب روپے پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوئے، وزارت خزانہ کا مو¿قف تھا کہ غیر منظور شدہ گرانٹس اگلے بجٹ میں ریگولرائزیشن کے لیے پیش کی جائیں گی.

آئین کے آرٹیکلز 169 اور 170 کے تحت اے جی پی کو وفاقی و صوبائی حکومتوں اور ان کے ماتحت اداروں کے اکاﺅنٹس کا آڈٹ کرنے کا اختیار ہے وفاقی حکومت کی یہ مجموعی آڈٹ رپورٹ 7,879 وفاقی اداروں کے اکاﺅنٹس پر مبنی ہے جن کا آڈٹ مالی سال 24-2023 کے لیے کیا گیا اور اس میں پچھلے سالوں کی کچھ مشاہدات بھی شامل ہیں آڈٹ 25-2024 کے دوران ٹیسٹ چیک کی بنیاد پر کیا گیا تاکہ اہم مالی بے ضابطگیوں کو اسٹیک ہولڈرز کے سامنے لایا جا سکے کم اہم مسائل متعلقہ پرنسپل اکاﺅنٹنگ افسران کے ساتھ اٹھائے جائیں گے اور اگر حل نہ ہوئے تو انہیں آئندہ سال کی آڈٹ رپورٹ میں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے سامنے لایا جائے گا اے جی پی نے دعویٰ کیا کہ اس کے آڈٹ اقدامات نے اداروں کے کنٹرول میکانزم کو بہتر بنانے میں کردار ادا کیا ہے اور جہاں اداروں نے سفارشات پر عمل کیا وہاں مالی نظم و ضبط اور قوانین کی پاسداری میں بہتری آئی ہے.