آڈیٹر جنرل پاکستان کا ٹیکس وصولی میں کمی اور وسیع پیمانے پر اکاﺅنٹنگ کی بے ضابطگیاں کا انکشاف

789 ارب 92 کروڑ روپے کا ٹیکس خلا سامنے آیا ہے‘ سب سے بڑے خسارے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں دیکھے گئے ہیں.اے جی پی کی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 22 اگست 2025 14:44

آڈیٹر جنرل پاکستان کا ٹیکس وصولی میں کمی اور وسیع پیمانے پر اکاﺅنٹنگ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اگست ۔2025 )آڈیٹر جنرل پاکستان (اے جی پی) نے مالی سال 25-2024 کی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ملک میں ٹیکس وصولی میں شدید کمی اور وسیع پیمانے پر اکاﺅنٹنگ کی بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں جس کے نتیجے میں 789 ارب 92 کروڑ روپے کا ٹیکس خلا سامنے آیا ہے.

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق اے جی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس کی تعمیل اور نفاذ میں سنگین کمزوریاں موجود ہیں جن میں سب سے بڑے خسارے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں دیکھے گئے ہیں انکم ٹیکس کا خسارہ سب سے زیادہ 480 ارب 19 کروڑ روپے رہا اس کے بعد سیلز ٹیکس میں 212 ارب 12 کروڑ روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی کسٹمز ڈیوٹی میں 40 ارب روپے کا نقصان ہوا، جبکہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 61 کروڑ 50 لاکھ روپے کی بے ضابطگی سامنے آئی یہ اعداد و شمار ٹیکس وصولی اور حکمرانی کے نظام میں ناکامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں.

اے جی پی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مالی بے ضطگیوں میں سرکاری‘نیم سرکاری‘خودمختاراور نجی شعبے میں کام کرنے والی بڑی کمپنیاں اور افراد شامل ہیں جبکہ سرکاری اداروں کے ماتحت کام کرنے والے متعددکاروباری اداروں کو قانون میں موجود کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ”فلاحی اداروں“کے طور پر رجسٹرکرواکر سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس چوری کیا جاتا ہے ‘سپرٹیکس بڑی کمپنیوں اور امراءپر عائدہوتا ہے مگر سپر ٹیکس کی وصولی کے اہداف آج تک حاصل نہیں کیئے جاسکے‘اشرافیہ کی جانب سے جائیدادیں‘مہنگی گاڑیاں کی خریداری پرسپرٹیکس عائدہے مگر ایف بی آر اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے اہداف کو پورا کرنے کے لیے اس کا بوجھ عام شہریوں پر ڈال دیتا ہے .

آڈیٹر جنرل نے یہ بھی بتایا کہ ایف بی آر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور اکاﺅٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو (اے جی آر پی) کی جانب سے فراہم کردہ خالص آمدنی کے اعداد و شمار میں 57 ارب روپے کا فرق پایا گیا، جو کلیدی اداروں کے درمیان مالیاتی اکاﺅنٹنگ میں سنگین تضادات کو ظاہر کرتا ہے سب سے بڑے ریونیو نقصانات میں 167ارب 88 کروڑ روپے کا انڈر-کلیکٹڈ سپر ٹیکس، 149 ارب 57 کروڑ روپے کے ناقابل قبول اخراجات کے دعوے، اور 62 ارب 32 کروڑ روپے کے ناقابل وصول ٹیکس مطالبات شامل ہیں.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دیگر خساروں میں 22 ارب 87 کروڑ روپے کا مِنیمَم ٹیکس، 45 ارب 39 کروڑ روپے کا ودہولڈنگ ٹیکس، اور 9 ارب 66 کروڑ روپے کے ڈیفالٹ سرچارجز شامل ہیں، اس کے علاوہ، 6 ارب 52 کروڑ روپے کا سیلز ٹو ریٹیلرز پر بقایا انکم ٹیکس اور 6 ارب 79 کروڑ روپے کے مشکوک ریفنڈ کلیمز بھی ٹیکس ایڈمنسٹریشن کی جاری کمزوریوں کی عکاسی کرتے ہیں رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا کہ آمدنی کو چھپانے سے 54 ارب 19 کروڑ روپے کا نقصان ہوا دیگر ذرائع آمدنی پر ٹیکس نہ لگانے سے 23 ارب 28 کروڑ روپے کا نقصان ہوا جب کہ ریٹرن جمع نہ کرانے یا تاخیر پر جرمانے نہ لگانے سے 26 ارب 59 کروڑ روپے کا نقصان ہوا.

مزید برآں 13 ارب 63 کروڑ روپے کے زائد ودہولڈنگ ٹیکس ایڈجسٹمنٹس، 10 ارب 68 کروڑ روپے کے مزدور ویلفیئر فنڈ کی عدم ادائیگی اور 9 ارب 24 کروڑ روپے کے ناقابل قبول ڈپریسی ایشن اور انیشل الاﺅنس کلیمز سامنے آئے غیرقانونی ٹیکس کریڈٹس میں 25 کروڑ 12 لاکھ روپے عطیات کی مد میں ایک ارب 61 کروڑ روپے سرمایہ کاری کی مد میں اور 2 ارب 48 کروڑ روپے جنرل کلیمز کی مد میں شامل ہیں دیگر خساروں میں بروکریج اور کمیشن انکم (2 ارب 52 کروڑ روپے)، تنخواہوں کی آمدنی (3 ارب 12 کروڑ روپے)، ڈیویڈنڈز (2 ارب 15 کروڑ روپے) اور جائیداد کی آمدنی (ایک ارب 2 کروڑ روپے) شامل ہیں غلط ٹیکس ریٹس کے باعث 2 ارب 40 کروڑ روپے کا نقصان ہوا 80 کروڑ 57 لاکھ روپے کا متبادل کارپوریٹ ٹیکس وصول نہیں کیا گیا اور اسیسمنٹ آرڈرز میں غیرقانونی ترامیم سے 2 ارب 55 کروڑ روپے کا نقصان ہوا.

سیلز ٹیکس کے شعبے میں بھی بڑے خسارے ریکارڈ کیے گئے جن میں 123 ارب 59 کروڑ روپے کی جعلی انوائسز کی بنیاد پر ناقابل قبول ان پٹ ٹیکس کریڈٹ ایڈجسٹمنٹس شامل ہیں دیگر خساروں میں 8 ارب 54 کروڑ روپے ان پٹ ٹیکس کی عدم تقسیم سے اور 35 ارب 97 کروڑ روپے چھپی ہوئی فروخت سے ہوئے مزید برآں 7 ارب 48 کروڑ روپے کے ناقابل قبول استثنٰی اور 5 ارب 52 کروڑ روپے غلط ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹس سے ضائع ہوئے کسٹمز کے شعبے میں بھی شدید مالی بے ضابطگیاں سامنے آئیں جن میں 12 ارب 60 کروڑ روپے ضبط شدہ اشیا اور گاڑیوں میں، اور 9 ارب 35 کروڑ روپے غیر نقدی مالیاتی آلات میں بندھے ہوئے ہیں دیگر خساروں میں 3 ارب 29 کروڑ روپے ایکسپورٹ نہ کیے گئے سامان سے، 2 ارب 27 کروڑ روپے ناقابل وصول واجبات سے، اور ایک ارب 56 کروڑ روپے ناقابل قبول استثنیٰ اور رعایتوں سے ہوئے، درآمدات کی کم قیمت ظاہر کرنے سے 86 کروڑ 67 لاکھ روپے، ایک ارب 42 کروڑ روپے، اور غلط درجہ بندی ایک ارب 16 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ97 کروڑ 39 لاکھ روپے غیر حل شدہ مقدمات، 97 کروڑ 38 لاکھ روپے عدالتوں کے مقدمات پر موثر عملدرآمد نہ ہونے، اور 42 کروڑ 73 لاکھ روپے غیرقانونی نیلامیوں کی وجہ سے نقصان ہوا، ویئرہاﺅسز میں کلیئرنس نہ ہونے والے سامان سے 25 کروڑ 36 لاکھ روپے اور غیر قانونی درآمدات سے ایک کروڑ 99 لاکھ روپے کا نقصان ہوا آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ پاکستان کے ٹیکس وصولی کے نظام کی سنگین صورتحال کو ظاہر کرتی ہے جس میں متعدد شعبوں میں شدید کمزوریاں اور نظامی خامیاں پائی جاتی ہیں رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیاہے کہ فوری اصلاحات، بہتر نفاذ اور سخت نگرانی کی ضرورت ہے تاکہ ان وسیع پیمانے پر ہونے والے نقصانات کو روکا جا سکے اور مالیاتی حکمرانی کو مزید موثر بنایا جا سکے.