ٹرانس نیشنل ایجوکیشن پاکستان کی ترقی کے نئے دروازے کھول سکتی ہے، سردار مسعود خان

پاکستان میں 25 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں، تعلیم میں سرمایہ کاری ناگزیر ہے،بین الاقوامی معیار کی تعلیم اب ملک کے اندر کم لاگت میں ممکن ہے، وائس چانسلرز کانفرنس سے خطاب

اتوار 31 اگست 2025 14:40

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 اگست2025ء) آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر اور امریکہ، چین اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر سردار مسعود خان نے بین الاقوامی تعلیم کے موضوع پر منعقدہ اعلیٰ سطحی کانفرنس سے کلیدی خطاب کیا۔ اپنے جامع خطاب میں انہوں نے پاکستان کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو مضبوط بنانے، بین الاقوامی تعلیمی روابط (ٹرانس نیشنل ایجوکیشن) کے ذریعے مواقع بڑھانے اور پاکستان کو علم پر مبنی عالمی طاقت کے طور پر متعارف کرانے کا وژن پیش کیا۔

وائس چانسلرز کانفرنس 2025 کی میزبانی چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر اقرار احمد خان نے کی۔ افتتاحی اجلاس میں سردار مسعود خان نے اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات اور ٹرانس نیشنل ایجوکیشن کے موضوع پر خصوصی اجلاس کی صدارت کی، جس میں ممتاز ملکی و غیر ملکی ماہرین تعلیم شریک ہوئے۔

(جاری ہے)

ان میں جرمنی کی یونیورسٹی آف کیسل کے پروفیسر ڈاکٹر اینڈریاس بیوکرٹ، واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی کے سینیئر ایڈوائزر ڈاکٹر آصف چوہدری، اسٹافورڈ شائر یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر راحیل نواز، یونیورسٹی آف فلوریڈا کے ڈاکٹر جان کے۔

شوئلر اور یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے پرووسٹ ڈاکٹر ریحان صدیق شامل تھے۔کانفرنس سے بعد ازاں ممتاز رہنماؤں اور ماہرین تعلیم نے بھی خطاب کیا، جن میں پنجاب کے سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول، لمز لاہور کے بانی پرو چانسلر سید بابر علی (آن لائن شرکت) اور نالج اسٹریمز کے بانی و چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر سہیل ایچ نقوی شامل تھے۔

سردار مسعود خان نے اپنے خطاب پاکستان میں اعلیٰ تعلیم، ٹرانس نیشنل ایجوکیشن کا دائرہ، ملکی تعلیمی نظام پر اس کے اثرات، اور پاکستان کی قومی سمت کو اجاگر کرتے ہوئے زور دیا کہ تعلیم میں سرمایہ کاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی ڈھائی سو ملین ہے لیکن تقریباً پچیس ملین بچے اب بھی اسکولوں سے باہر ہیں جو ایک ''ٹائم بم'' ہے۔

انسانی وسائل میں سرمایہ کاری کے بغیر نہ استحکام ممکن ہے اور نہ ہی 2047 تک دنیا کی نمایاں معیشت بننے کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں کی تعداد 275 سے تجاوز کرچکی ہے جو ایک بڑی پیش رفت ہے، تاہم معیار، عالمی مسابقت اور ادارہ جاتی روابط کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلا قدم ہماری جامعات کو بین الاقوامی معیار اور منڈیوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔

ٹرانس نیشنل ایجوکیشن کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ یہ عالمی سطح پر ایک نمایاں رجحان بن چکا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا نے طلبہ کو یہ سہولت دی ہے کہ وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی بین الاقوامی اسناد حاصل کرسکیں۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت گیارہ سے تیرہ ہزار پاکستانی طلبہ برطانیہ کی مختلف نامور جامعات جیسے یونیورسٹی آف لندن، لندن اسکول آف اکنامکس، یونیورسٹی آف ہرٹ فورڈ شائر اور یونیورسٹی آف دی کری ایٹو آرٹس کے ساتھ ٹرانس نیشنل پروگرامز میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک ڈگری لندن میں حاصل کرنے پر تقریباً چار کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں جبکہ یہی ڈگری ٹرانس نیشنل معاہدے کے تحت پاکستان میں چار ملین روپے میں ممکن ہے۔ یہ فرق ہزاروں خاندانوں کے لیے مواقع اور محرومی کے درمیان حد فاصل ہے۔سردار مسعود خان کے مطابق پاکستان کی مڈل کلاس کی تعداد 80 ملین تک پہنچ چکی ہے جس سے بین الاقوامی ڈگریوں کی طلب میں اضافہ ہوا ہے، اور ٹرانس نیشنل تعلیم کے فارغ التحصیل طلبہ ملک کے کارپوریٹ سیکٹر، ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپس اور نئی صنعتوں میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ پالیسی سازوں کو بنیادی اور ثانوی تعلیم کی طرف بھی یکساں توجہ دینی چاہیے کیونکہ جامع اصلاحات کے بغیر حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔اپنے اختتامی کلمات میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک نوجوان اور ٹیکنالوجی سے تیزی سے ہم آہنگ ہونے والی قوم ہے۔ پاکستان پہلے ہی دنیا کی تیسری بڑی فری لانسنگ فورس ہے اور نوجوان مصنوعی ذہانت، بلاک چین، روبوٹکس اور انٹرنیٹ آف تھنگز کے ذریعے آمدن حاصل کررہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ وہ موقع ہے جس سے پاکستان بتدریج نہیں بلکہ تیز رفتار ترقی کرسکتا ہے۔تقریب کے اختتام پر ماہرین تعلیم اور صنعت کے نمائندوں نے ٹرانس نیشنل ایجوکیشن کو پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔