جرمنی کی 200افغان مہاجروں کی درخواستوں پر غو رکرنے کی یقین دہانی

جرمن فوج سے تعاون کرنے والے افغان باشندے تین سال سے ویزوں کے انتظار میں ہیں.جرمن چانسلر کو خط

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 3 ستمبر 2025 14:37

جرمنی کی 200افغان مہاجروں کی درخواستوں پر غو رکرنے کی یقین دہانی
برلن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 ستمبر ۔2025 )جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا ہے کہ جرمن حکومت ان 200 سے زائد افغان باشندوں کی فوری مدد کی اپیل پر غور کر رہی ہے، جنہیں پاکستان سے واپس افغانستان بھیج دیا گیا ہے فرانسیسی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ گروپ ان تقریباً 2 ہزار 400 افغانوں میں شامل ہے، جو حالیہ برسوں میں پاکستان فرار ہوئے تھے کیوں کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ جرمنی انہیں پناہ دے گا تاہم اس سے پہلے ہی برلن کی نئی حکومت نے مہاجرین سے متعلق اپنا رویہ سخت کر لیا تھا.

(جاری ہے)

ان 200 سے زائد افراد (جنہیں پاکستان نے اگست کے وسط میں افغانستان بدر کیا ہے) نے اپنے گمنام خط کو زندگیاں بچانے کے لیے فوری مداخلت کی بے بس اپیل قرار دیا ہے، کیوں کہ انہیں طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائی کا خطرہ ہے برلن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مرز سے جب اس خط کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور یہ وعدہ کیا کہ جرمنی کی پچھلی حکومتوں کی جانب سے کیے گئے قانونی طور پر پابند وعدے پورے کیے جائیں گے.

یاد رہے کہ 2021 میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو برلن نے ایک اسکیم نکالی تھی تاکہ ان افغانوں کو پناہ دی جائے جنہوں نے افغانستان میں جرمن افواج کے ساتھ کام کیا تھا یا جو طالبان کے ہاتھوں خاص خطرے میں سمجھے جاتے تھے، مثلاً صحافی، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکن تاہم جب سے مرز کی قدامت پسند قیادت والی اتحادی حکومت نے مئی میں اقتدار سنبھالا ، اس عمل کو روک دیا گیا ہے تاکہ مجموعی طور پر امیگریشن پالیسی کو سخت کیا جا سکے.

ان افراد کے بارے میں بڑھتی تشویش کے باعث جو اب غیر یقینی صورتحال میں ہیں، برلن نے پیر کو پہلی مرتبہ 47 افغانوں کو جرمنی آنے کی اجازت دی, جنہوں نے عدالت میں کامیاب اپیل کی تھی اس گروپ نے چانسلری اور وزارتِ خارجہ و داخلہ کو بھیجے گئے ایک خط میں اپنی کربناک حالت بیان کی، ان میں انسانی حقوق کے کارکن، فنکار، سابق جج اور ان کے اہل خانہ شامل .

انہوں نے لکھا کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے اور جرمنی میں ایک محفوظ زندگی شروع کرنے کی امید کے ساتھ ہم نے سنگین خطرات اور خطرناک سفر کے باوجود افغانستان چھوڑا انہوں نے کہا کہ وہ اسلام آباد اس توقع کے ساتھ گئے تھے کہ چند ماہ میں جرمن ویزے مل جائیں گے لیکن اکثر معاملات میں وہ 3 سال سے زیادہ عرصے سے انتظار کر رہے تھے گزشتہ ماہ افغانستان واپس بھیجے جانے کے بعد سے ہم ایک نام نہاد ’محفوظ پناہ گاہ‘ میں مسلسل خوف کے عالم میں رہ رہے ہیں جو آپ کے شراکت داروں نے قائم کی ہے.

انہوں نے کہا کہ طالبان کے داخلے کا مستقل خطرہ، انتقام کا خوف، بلاجواز حراست، اغوا، تشدد یا موت نے ناقابلِ برداشت ذہنی صدمہ پیدا کر دیا ہے جرمن چانلسر فریڈرک مرز نے کہا کہ حکومت اب افغانوں کی جرمنی میں داخلے کی اہلیت کیس ٹو کیس کی بنیاد پر جانچ رہی ہے کچھ معاملات بالکل واضح ہیں کچھ میں ابہام ہے اور ہر صورت میں ہر فرد کے داخلے سے پہلے سیکیورٹی جانچ لازمی ہے. انہوں نے کہا کہ جرمنی نے پچھلی حکومت کے تحت متعدد قانونی ذمہ داریاں قبول کی تھیں جنہیں یہ حکومت بھی لازمی طور پر پورا کرے گی انہوں نے کہا کہ تمام معاملات کا جائزہ لیا جا رہا ہے خاص طور پر سیکیورٹی کے حوالے سے، اور اس تناظر میں ہم ان 200 افغانوں کی درخواست پر بھی غور کر رہے ہیں جنہوں نے ہم سے رابطہ کیا ہے.