507 ارب روپے کا نیلم۔جہلم منصوبہ مقاصد اورعملدرآمد کے لحاظ سے مکمل ناکام قرار

بدھ 3 ستمبر 2025 17:20

507 ارب روپے کا نیلم۔جہلم منصوبہ مقاصد اورعملدرآمد کے لحاظ سے مکمل ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 ستمبر2025ء)آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے 507 ارب روپے کے نیلم۔جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے کو مقاصد، منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے لحاظ سے ناکام قرار دے دیا۔اے جی پی کی جانب سے کہا گیا کہ منصوبہ پاکستان کے آبی حقوق کا تحفظ کر سکا نہ ہی ڈیزائن کے مطابق توانائی پیدا کر سکا، متعدد سرنگوں کی خرابیوں اور انہدام نے اس قومی اہمیت کے منصوبے پر کام کے معیار پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق صدر اور پارلیمان کو پیش کی گئی کارکردگی آڈٹ رپورٹ 23-2022 میں بتایا گیا کہ نتائج میں سرنگ کے ہیڈ ریس حصے کے بڑے انہدام کو شامل ہی نہیں کیا گیا، جو گزشتہ سال پیش آیا اور جس کے باعث منصوبہ بند رہا۔یہ رپورٹ واپڈا کی انتظامیہ کی جانب سے آڈٹ اعتراضات پر دیے گئے جوابات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق منصوبہ سنگین تاخیر کا شکار رہا، حالانکہ کھدائی میں تیزی لانے کیلئے ٹنل بورنگ مشینیں (ٹی بی ایمز) فراہم کی گئی تھیں، تاہم بنیادی وجہ ڈیزائن میں بار بار تبدیلیاں تھیں۔

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ منصوبہ متوقع بجلی پیدا کرنے کے فوائد حاصل کر سکا نہ ہی دریائے نیلم پر آبی حقوق قائم کر سکا، منصوبہ کلین ڈیولپمنٹ میکانزم (سی ڈی ایم) کے تحت کاربن کریڈٹ بیچنے کے قابل ہوا نہ ہی ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات مکمل ہو سکے،اگرچہ پہلا یونٹ 2018 میں چلایا گیا تاہم ٹھیکیدار بقیہ کام، معاہدے کی شرائط پوری کرنے اور ہموار آپریشن کے لیے ضروری پرزہ جات فراہم کرنے میں ناکام رہے، رپورٹ میں کہا گیا کہ چند ہی برسوں بعد پاور ہاؤس کی ٹیل ریس ٹنل کے انہدام نے بھی ڈیزائن اور کام کے معیار پر شکوک پیدا کیے ہیں۔

رپورٹ میں یاد دلایا گیا کہ واپڈا کو منصوبے کو دسمبر 1989 میں ایکنک سے منظور شدہ اصل پی سی-ون کے مطابق 15 ارب 12 لاکھ روپے کی لاگت پر مکمل کرنا تھا،تاہم 3 بار نظرثانی کے بعد مئی 2018 میں چوتھا ترمیم شدہ پی سی-ون 506 ارب 80 کروڑ روپے کا منظور ہوا، جب کہ جون 2023 تک 423 ارب 44 کروڑ 60 لاکھ روپے خرچ ہو چکے تھے۔منصوبہ تقریباً 8 سال تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت 84 ارب 50 کروڑ روپے سے بڑھ کر 419 ارب 45 کروڑ روپے تک پہنچ گئی، یعنی 334 ارب 95 کروڑ 20 لاکھ روپے اضافی خرچ ہوئے۔

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ منصوبے پر مؤثر انداز میں عمل درآمد نہیں کیا گیا، کیونکہ وسائل کا درست استعمال نہیں ہوا اور پی سی-ون کے تحت طے شدہ وقت کو نظر انداز کیا گیا، ٹھیکیداروں کی تاخیر کی وجہ سے معاہدوں سے متعلق مسائل بھی حل نہیں ہو سکے۔آڈٹ نے نتیجہ اخذ کیا کہ مؤثر ہونے کے اعتبار سے منصوبہ سستی بجلی فراہم کر سکا نہ ہی دریائے نیلم پر پانی کے حقوق محفوظ کر سکا،ٹیل ریس ٹنل کے انہدام نے پاور ہاؤس کو مارچ 2023 تک بند رکھا، جس سے بجلی کی پیداوار میں بھاری نقصان اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منصوبہ سالانہ 5 ہزار 150 گیگاواٹ آور بجلی پیدا کرنے کے فوائد حاصل کر سکا نہ ہی نیلم دریا پر پانی کے حقوق قائم کر سکا، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان عالمی ثالثی عدالت میں کشن گنگا ڈیم کا مقدمہ ہار گیا تھا۔چاروں یونٹس جولائی سے دسمبر 2018 کے درمیان بجلی پیدا کرنے لگے، فنڈنگ وفاقی حکومت کے ترقیاتی قرضوں، واپڈا کی اپنی ایکویٹی، نیلم۔

جہلم سرچارج اور ملکی و غیر ملکی قرضوں کے ذریعے کی گئی، آڈٹ انٹوسائی آڈٹنگ اسٹینڈرڈز، پرفارمنس آڈٹ مینوئل اور متعلقہ قوانین کے مطابق کیا گیا۔اہم آڈٹ نکات میں سالانہ 5 ہزار 150 گیگاواٹ آور بجلی پیدا کرنے میں ناکامی، نیلم/کشن گنگا پر آبی حقوق قائم کرنے میں ناکامی، 9 سال کی تاخیر، اور 338 ارب 94 کروڑ روپے کا اضافی خرچ، دیگر سنگین کوتاہیوں میں منصوبے کی ادائیگی کی مدت کا 5 سال سے بڑھ کر 12 سال ہونا، کلین ڈیولپمنٹ میکانزم کے تحت 5 کروڑ 13 لاکھ ڈالر کی آمدنی حاصل نہ ہونا، سالانہ پیداوار میں کمی، اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث 3 ارب 5 لاکھ روپے کا ماحولیاتی نقصان شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیپرا سے ریفرنس ٹیرف کی عدم منظوری کے باعث 70 ارب 44 کروڑ روپے کا نقصان ہوا، ٹیل ریس ٹنل کے انہدام سے 20 ارب 38 کروڑ روپے کا پیداواری نقصان ہوا، مگر کوئی انکوائری نہیں کی گئی،ٹھیکیداروں کو ایک ارب 78 کروڑ روپے کی غیر ضروری اضافی ادائیگیاں کی گئیں، ٹیلی کام کے غیر تکمیل شدہ کاموں اور ایڈوانس ادائیگیوں کی وصولی نہیں ہو سکی، ملبے کو دوبارہ نہ ہٹانے سے ٹھیکیداروں کو غیر منصفانہ فائدہ ملا، 42 ارب روپے کا انشورنس کلیم وصول نہیں کیا گیا، اور پرزہ جات کی فراہمی اور دیگر کام بھی مکمل نہیں ہوئے۔

آڈیٹر جنرل نے نتیجہ اخذ کیا کہ نیلم۔جہلم منصوبہ تقریباً ہر مقصد میں ناکام رہا، جس سے بھاری مالی نقصانات، حل طلب معاہداتی تنازعات اور ساخت کے سنگین نقائص پیچھے رہ گئے