اسرائیلی حکام کی ’نسل کشانہ بیان بازی‘ پر اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش

DW ڈی ڈبلیو پیر 8 ستمبر 2025 14:40

اسرائیلی حکام کی ’نسل کشانہ بیان بازی‘ پر اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش
  • اسرائیلی حکام کی ’نسل کشانہ بیان بازی‘ پر اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش
  • ہسپانوی وزیر اعظم کے اسرائیل کے خلاف اقدامات

ہسپانوی وزیر اعظم کے اسرائیل کے خلاف اقدامات

اسپین کے وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے پیر کے روز نو اقدامات کا اعلان کیا، جن کا مقصد ’’غزہ میں نسل کشی کو روکنا‘‘ ہے۔

ان میں اسرائیل کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل پر پابندی اور اسرائیلی فوج کے لیے ایندھن لے جانے والے جہازوں کو ہسپانوی بندرگاہوں کے استعمال سے روکنا بھی شامل ہے۔

یہ اعلان غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں پر اسرائیل پر کی جانے والی تنقید کی نئی سطح کو ظاہر کرتا ہے۔

سانچیز نے اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں کہا کہ یہ اقدامات ’’غزہ میں نسل کشی کو روکنے، اس میں ملوث مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور فلسطینی عوام کی مدد کرنے‘‘ کے لیے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ ان کی بائیں بازو کی حکومت ایک حکم نامہ منظور کرے گی، جس کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ فوجی ساز و سامان کی خرید و فروخت پر پہلے سے موجود پابندی کو قانون کا حصہ بنایا جائے گا۔

سانچیز کے مطابق اسرائیلی فوج کے لیے ایندھن لے جانے والے جہاز ہسپانوی بندرگاہوں میں داخل نہیں ہو سکیں گے اور اسپین فضائی راستے سے اسرائیل کو فوجی سامان کی ترسیل کم کرنے کے لیے بھی اقدامات کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’’وہ تمام افراد جو نسل کشی، انسانی حقوق کی پامالی اور غزہ پٹی میں جنگی جرائم میں براہ راست شریک ہیں،‘‘ ان کے اسپین میں داخلے پر پابندی ہو گی۔


اسرائیلی حکام کی ’نسل کشانہ بیان بازی‘ پر اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر فولکر ترک نے پیر کے روز اسرائیلی حکام کی جانب سے کھلے عام ’’نسل کشانہ بیان بازی‘‘ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ’’اس قتل عام کو ختم کرانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات‘‘ کرے۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے 60 ویں اجلاس سے اپنے افتتاحی خطاب میں فولکر ترک نے کہا کہ فلسطینی علاقہ پہلے ہی ’’ایک قبرستان‘‘ بن چکا ہے۔ انہوں نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ ’’فلسطینی شہریوں کے بڑے پیمانے پر قتل، ناقابل بیان تکالیف، امداد میں رکاوٹیں ڈالنے، شہریوں کو بھوک کا شکار کرنے، صحافیوں، اقوام متحدہ کے اہلکاروں اور این جی او ورکرز کو قتل کرنے اور بار بار جنگی جرائم‘‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔

ترک نے کہا کہ انہیں اسرائیلی اعلیٰ حکام کی جانب سے ’’نسل کشانہ زبان اور فلسطینیوں سے متعلق توہین آمیز غیر انسانی بیان بازی‘‘ پر شدید افسوس ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل میں حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کو تقریباً دو سال گزر جانے کے بعد بھی ’’پورا خطہ امن کے لیے چیخ رہا ہے۔‘‘

ان کے اس بیان سے ایک روز قبل اسرائیلی فوج نے غزہ سٹی میں ایک رہائشی عمارت کو بمباری سے تباہ کیا، جو تین دن میں تیسرا واقعہ تھا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی اعلان کیا کہ غزہ پٹی کے بڑے شہری مرکز پر فوجی کارروائی ’’مزید شدید‘‘ ہو گی۔

اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ سٹی اور اس کے اطراف میں تقریباً دس لاکھ افراد اب بھی موجود ہیں، جہاں گزشتہ ماہ قحط کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا تھا۔

اس عالمی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی حملے جاری رہنے کی صورت میں ایک بڑا ’’انسانی سانحہ‘‘ جنم لے سکتا ہے۔

فولکر ترک نے واضح کیا کہ اسرائیل پر قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عالمی عدالت برائے انصاف کے احکامات پر عمل کرے، نسل کشی کو روکے، اس کی ترغیب دینے والوں کو سزا دے اور فلسطینیوں کے لیے مناسب امداد کی ترسیل یقینی بنائے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے کہا کہ عالمی برادری اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ’’ناکام‘‘ ہو رہی ہے۔