اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 ستمبر 2025ء) پاکستان کے غریب ترین صوبے بلوچستان میں اسلامک اسٹیٹ کے حملے کے خلاف ہونے والی ہڑتال کے دوران مظاہرین حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرے۔ مظاہرین ریاستی ردعمل پر بھی سوال اٹھا رہے تھے۔ پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
یہ مظاہرے 2 ستمبر کو کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی سیاسی ریلی میں ہونے والے بم دھماکے کے ردعمل میں کیے جا رہے ہیں۔
اسلامک اسٹیٹ نے کوئٹہ کے ایک اسٹیڈیم کی پارکنگ میں کیے جانے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جہاں بی این پی کے سینکڑوں حامی ایک ریلی کے لیے جمع تھے۔ اس واقعے میں اس حملے میں 15 افراد جان سے گئے تھے۔(جاری ہے)
بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے ریاستی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ''کیا اس کی ذمہ دار ریاست نہیں؟ کیا ریاست کا فرض نہیں تھا کہ ان بے گناہوں کو تحفظ فراہم کرتی؟‘‘
بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس نے سڑکیں بلاک کرنے والے مظاہرین کو گرفتار کیا۔
سینیئر پولیس سپرنٹنڈنٹ محمد بلوچ نے اے ایف پی کو بتایا کہ مظاہرین کو پہلے ہی خبردار کیا گیا تھا کہ پرامن احتجاج ان کا حق ہے، لیکن عوامی آمدورفت میں خلل ڈالنے یا کاروبار بند کرانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس دوران صوبے کے ایک درجن سے زائد شہروں میں کاروبار بند ہے۔بلوچستان، جو ایران اور افغانستان کی سرحد پر واقع ہے، طویل عرصے سے شورش اور دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔
یہاں اسلامک اسٹیٹ خراسان، آئی ایس پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے حملے معمول بن گئے ہے۔ بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے بڑا اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے ''ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹر‘‘ یا انسانی ترقی کے اشاریوں کے اسکور کارڈ پر سب سے پیچھے ہے۔ادارت: عدنان اسحاق