لله$برسلز(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 ستمبر2025ء) فلسطینی محمد ابو دخہ ایک جیٹ اسکی کے ذریعے غزہ سے نکلے اور کئی ممالک سے ہوتے ہوئے بالآخر یورپ پہنچ گئے۔عالمی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ابو دخہ کے اس سفر میں ایک سال سے زیادہ کا وقت، کئی ہزار ڈالر، چالاکی، ناکامیاں اور ایک جیٹ اسکی لگی، اس طرح 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے غزہ سے یورپ تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی۔
انہوں نے اپنی کہانی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیو فائلز کے ذریعے دستاویزی شکل میں محفوظ کی،جو انہوں نے برطانوی میڈیا کے ساتھ شیئر کیں، رائٹرز نے اٹلی پہنچنے پر ان سے اور ان کے ساتھیوں سے انٹرویوز کیے اور غزہ میں ان کے رشتہ داروں سے بھی بات کی،تقریباً دو سالہ اسرائیل-حماس جنگ سے ہونے والی تباہی کے بعد وہاں سے نکلے، جس میں غزہ کے صحت حکام کے مطابق 64 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، ابو دخہ اپریل 2024 میں رفح سرحد پار کر کے پانچ ہزار ڈالر کے عوض مصر میں داخل ہوئے۔
(جاری ہے)
ابو دخہ نے بتایا کہ وہ ابتدا میں چین گئے تھے، جہاں انہیں پناہ ملنے کی امید کی تھی تاہم ناکامی کے بعد وہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے راستے دوبارہ مصر آگئے، انہوں نے رائٹرز کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے چین میں نمائندہ دفتر کے ساتھ اگست اور ستمبر 2024 کی ای میل دکھائی۔اس کے بعد وہ لیبیا گئے جہاں انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ کی متعدد رپورٹس کے مطابق، دسیوں ہزار تارکین وطن کو یورپ جانے کیلئے کشتی میں جگہ حاصل کرنے کی کوششوں کے دوران اسمگلروں اور ملیشیاؤں کے ہاتھوں بدسلوکی اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اٹلی کی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اب تک، زیادہ تر لیبیا اور تیونس سے، کشتیوں کے ذریعے آنے والے 47 ہزار سے زیادہ تارکین وطن اٹلی پہنچ چکے ہیں لیکن ابو دخہ نے غیر معمولی حالات میں یہ سفر کیا۔ابودخہ نے بتایا کہ دس ناکام کوششوں کے بعد، انہوں نے لیبیا کے ایک آن لائن مارکیٹ پلیس سے تقریباً پانچ ہزار ڈالر میں ایک استعمال شدہ یاماہا جیٹ اسکی خریدی اور مزید پندرہ سو ڈالر آلات میں لگائے، جن میں جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس شامل ہیں۔
ابو دخہ نے بتایا کہ دو اور فلسطینی 27 سالہ ضیا اور 23 سالہ باسم بھی ان کے ہمراہ تھے، انہوں نے بتایا کہ وہ تقریباً 12 گھنٹے تک جیٹ اسکی چلاتے رہے، اس دوران اسے تیونس کی گشت کرتی کشتیوں سے بچنا پڑا جبکہ وہ اضافی سامان والی چھوٹی سی کشتی کو بھی کھینچ رہے تھے۔اس تین رکنی ٹیم نے ایندھن کی ضرورت کا حساب لگانے کے لیے چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کیا، لیکن پھر بھی لیمپیڈوسا سے تقریباً 20 کلومیٹر پہلے ایندھن ختم ہو گیا، انہوں نے مدد کے لیے کال کی، جس کے بعد ایک ریسکیو آپریشن کے ذریعے وہ 18 اگست کو اٹلی کے جنوبی ترین جزیرے پر اترے۔
یورپی یونین کے بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ترجمان نے کہا کہ انہیں رومانیا کی گشت کرتی کشتی نے اٹھایا اور ان حالات کو ایک غیرمعمولی واقعہ قرار دیا۔باسم نے کہا کہ یہ ایک بہت مشکل سفر تھا تاہم ہم مہم جو تھے، ہمیں مضبوط امید تھی کہ ہم پہنچ جائیں گے، اور اللہ نے ہمیں طاقت دی۔یو این ایچ سی آر اٹلی کے ترجمان فلیپو اونگارو نے کہا کہ’ جس طرح وہ آئے یہ واقعی منفرد تھا،’ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ حکام نے لیبیا کی بندرگاہ الخمس سے جیٹ اسکی کے ذریعے لیمپیڈوسا پہنچنے اور ریسکیو کے بعد ان کے اٹلی پہنچنے کا ریکارڈ رکھا ہے۔
ابو دخہ نے لیمپیڈوسا کے مہاجر مرکز سے رابطہ کیاجب وہاں کے ایک عملے کے رکن نے اسے بتایا کہ جیٹ اسکی کے ذریعے ان کی آمد کی مقامی میڈیا نے خبر دی ہے۔اس مقام سے انہوں نے مواد اور دستاویزات شیئر کیے، اگرچہ رائٹرز اس کی کہانی کے بعض پہلوؤں کی تصدیق نہیں کر سکا۔لیمپیڈوسا سے یہ داستان جاری رہی، ان تینوں کو فیری کے ذریعے اطالوی مین لینڈ سسلی پہنچایا گیا، پھر شمال مغربی اٹلی کے شہر جینوا منتقل کیا گیا، لیکن وہ اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے بس سے فرار ہو گئے۔
اطالوی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ ان تینوں کی حرکات کے بارے میں اس کے پاس کوئی مخصوص معلومات نہیں ہیں،کچھ گھنٹوں تک جھاڑیوں میں چھپنے کے بعد، ابو دخہ نے جینوا سے برسلز کے لیے پرواز لی، انہوں نے 23 اگست کی تاریخ والا جینوا سے برسلز شارلروئی تک ایک کم قیمت پرواز کا بورڈنگ کارڈ دکھایا۔برسلز سے، اس نے کہا کہ وہ جرمنی گئے، پہلے ٹرین کے ذریعے کولون، پھر اوسنا بروک (لوئر سیکسونی) تک، جہاں ایک رشتہ دار نے کار میں اسے اٹھایا اور قریبی شہر برامشے لے گیا۔
ابو دخہ نے کہا کہ انہوں نے پناہ کی درخواست دی ہے اور عدالت کی جانب سے اس کی درخواست کا جائزہ لینے کا انتظار کر رہا ہے، جس کی سماعت کی ابھی کوئی تاریخ مقرر نہیں، اس کے پاس نہ ملازمت ہے نہ آمدنی اور وہ مقامی پناہ گزین مرکز میں مقیم ہے۔جرمنی کے وفاقی دفتر برائے ہجرت و پناہ گزین نے رازداری کے باعث ان کے کیس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا،ابو دخہ کا خاندان اب بھی جنوبی غزہ کے خان یونس میں ایک خیمہ بستی میں رہتا ہے، ان کا گھر تباہ ہو چکا ہے۔
غزہ سے بات کرتے ہوئے اس کے والد انتصار خضیر ابو دخہ نے کہا کہ ان کی ایک انٹرنیٹ شاپ تھی، اور اس کا کام، خدا کا شکر ہے، مالی طور پر آسودہ تھا، اس نے سب کچھ بنایا تھا، اور یہ سب تباہ ہوگیا۔ابو دخہ کو امید ہے اسے جرمنی میں رہنے کی اجازت مل جائے گی اور وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو، جن کی عمریں چار اور چھ سال ہیں، وہاں لے آئے گا، انہوں نے کہا کہ ان میں سے ایک بچے کو اعصابی بیماری ہے جس کے لیے طبی دیکھ بھال ضروری ہے۔ابودخہ نے کہا کہ اسی لیے میں نے جیٹ اسکی پر اپنی جان داؤ پر لگائی۔ اپنے خاندان کے بغیر زندگی کا کوئی مطلب نہیں۔