Live Updates

37 سال میں 22 ارب ڈالر خرچ، پولیو کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکا، عالمی ادارہ

پیر 22 ستمبر 2025 16:28

37 سال میں 22 ارب ڈالر خرچ، پولیو کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکا، عالمی ادارہ
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 ستمبر2025ء)اقوام متحدہ (یو این) کی نگرانی میں پولیو کے خاتمے کیلئے کام کرنے والے ایک آزاد بورڈ نے اپنی نئی رپورٹ میں انتباہ دیا ہے کہ 37 سال کی محنت اور 22 ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود دنیا تاحال پولیو کے مکمل خاتمے سے دور ہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ (آئی ایم بی) نے رواں سال پاکستان میں 26 نئے پولیو کے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد انتباہ جاری کیا ہے کہ بیماری کے خاتمے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔

آئی ایم بی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 37 سال کی محنت اور 22 ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود، دنیا اس مقام پر آ گئی ہے جہاں پرانے طریقے زیادہ فائدہ نہیں دے رہے۔رپورٹ کے مطابق پولیو کے خاتمے کے یہ مشکل مراحل پرانے طریقوں سے عبور نہیں کیے جا سکتے، اس کیلئے نئی حکمتِ عملی اور ملکوں کی صاف اور مضبوط ذمہ داری ضروری ہے تاکہ کامیابی حاصل ہو۔

(جاری ہے)

آئی ایم بی کے چیئرمین سر لیام ڈونلڈسن نے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس آدانوم گھیبرییسس کو لکھے گئے خط میں کہا کہ دی گلاس ماؤنٹین کے عنوان سے یہ رپورٹ ایک اہم موڑ پر پیش کی گئی ہے۔

لیام ڈونلڈسن نے لکھا کہ مسلسل وائرل منتقلی، غیر معمولی جغرافیائی سیاسی خلفشار اور شدید مالی پابندیوں کا امتزاج ایسی صورت حال پیدا کر چکا ہے جو پروگرام کی بقا اور کامیابی کو بنیادی طور پر چیلنج کرتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ 2023 میں ابتدائی پرامیدی کے بعد وبا کی دوبارہ شدت کی سخت حقیقت سامنے آئی ہے کیونکہ وائرس کے تاریخی ذخائر، جس میں پاکستان اور افغانستان شامل ہیں دوبارہ متاثر ہوئے ہیں۔

عالمی ڈونر اداروں کی طرف سے کام کرنے والے آئی ایم بی نے کہا کہ کامیابی کیلئے صرف نئی سوچ، اداروں کا حوصلہ، حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی اور ملکوں کی صاف اور واضح ذمہ داری ہی راستہ ہیں۔بورڈ نے پروگرام میں موجود کئی بڑی کمزوریوں کی نشاندہی کی، ان میں فنڈنگ کا ایسا نظام جو کارکردگی دیکھے بغیر پیسہ دیتا ہے، انضمام کے ایسے کمزور طریقے جو ویکسی نیشن کے ساتھ بہتر طور پر نہیں جڑ پاتے، حکومت کی ملکیت اور سنجیدگی کی کمی اور ایسا احتسابی نظام جو صرف رپورٹیں بناتا ہے مگر عملی نتائج نہیں دیتا شامل ہیں،ان گہرے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکمت عملی اور احتساب میں بنیادی تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔

آئی ایم بی نے پاکستان اور افغانستان میں وائلڈ پولیو وائرس کو روکنے کی ذمہ داری ڈبلیو ایچ او کے مشرقی بحیرہ روم ریجنل (ای ایم آر او) وزارتی پولیو سب کمیٹی کو منتقل کرنے کی تجویز دی ہے۔لیام ڈونلڈسن نے استدلال کیا کہ یہ اقدام یہ تاثر ختم کر سکتا ہے کہ پولیو کے خاتمے کی کوششیں صرف مغرب کی خواہش ہیں نہ کہ علاقائی ترجیح اور اس سے کمیونٹی کی دشمنی، بائیکاٹ اور سیکیورٹی خطرات کم ہو سکتے ہیں، جو خاص طور پر پاکستان میں پولیو ورکرز اور پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کا سبب بنے ہیں،یہ تجویز اب باقاعدہ طور پر منظور کر لی گئی ہے کیونکہ پولیو نگرانی بورڈ نے 2026 جی پی ای آئی ایکشن پلان کو اپنایا۔

ڈبلیو ایچ او-ای ایم آر او کی علاقائی ڈائریکٹر حنان بلخی نے ایک پوسٹ میں کہا کہ آنے والا کم منتقلی والا موسم افغانستان اور پاکستان میں وائلڈ پولیو وائرس کو روکنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔لیام ڈونلڈسن کے خط میں جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں ڈرامائی تبدیلی کی بھی نشاندہی کی گئی، جس میں عالمی پولیو خاتمے کی پہل میں بڑے خلل کا ذکر کیا گیا۔

سر ڈونلڈسن نے کہا کہ امریکا کا ڈبلیو ایچ او سے انخلا، یو ایس ایڈ کے خاتمے اور سی ڈی سی کے عالمی صحت کے مینڈیٹ میں شدید کمی جی پی ای آئی کی تاریخ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ رپورٹ کے حتمی ہونے کے بعد پاکستان کے مختلف حصوں میں دو شدید مون سون کے سیلاب، افغانستان میں زلزلہ، بورنو میں بچوں کی غذائی کمی کا بحران اور کانگو کے مشرقی حصے میں ممکنہ امن معاہدہ پولیو کی آپریشنل صورتحال بدل چکے ہیں۔

رپورٹ پاکستان کے حالیہ ترقیاتی دعووں کو بھی چیلنج کرتی ہے، اگرچہ اسلام آباد دعویٰ کرتا ہے کہ 2021 سے 2023 تک پولیو کی منتقلی کو روکا گیا، آئی ایم بی نے کہا کہ یہ ممکنہ طور پر کووِڈ پابندیوں کا غیر ارادی نتیجہ تھا، جو پولیو وائرس کی منتقلی کے لیے دشمن تھیں، نہ کہ پروگرام کی بہتری کا نتیجہ۔پولیو کیلئے آپریشنل ماحول مسلسل بدل رہا ہے، آئی ایم بی کی میٹنگ کے بعد اور رپورٹ کے حتمی ہونے تک، پاکستان کے مختلف حصوں میں دو شدید مون سون سیلاب، افغانستان میں زلزلہ، بورنو میں بچوں کی غذائی کمی اور کانگو کے مشرقی حصے میں ممکنہ امن معاہدہ واقع ہوا۔

ایک پاکستانی پولیو ماہر جنہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کی، آئی ایم بی کے اندازے سے متفق ہیں اور احتساب، جدت اور انضمام کی کمی کی نشاندہی کی۔انہوں نے تجویز دی کہ حقیقی معنوں میں انتظام اور ملکیت حکومت کو منتقل کرنا، پروگرام کی دوبارہ ساخت، ای پی آئی کے ساتھ انضمام اور اعلیٰ سطح پر کم کارکردگی دکھانے والوں کو جوابدہ ٹھہرانا مسائل کو حل کر سکتا ہے۔
Live سیلاب کی تباہ کاریاں سے متعلق تازہ ترین معلومات