9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس‘ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے فیصلے تک کاروائی روکنے اور 19 ستمبر کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی درخواستیں خارج

منگل 23 ستمبر 2025 22:53

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 ستمبر2025ء) انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی خصوصی عدالت نے 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس میں جیل ٹرائل کی عدالت منتقلی کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے فیصلے تک کاروائی روکنے اور 19 ستمبر کے عدالتی کاروائی کی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی فراہمی سے متعلق دائر دونوں درخواستیں خارج کردی ہیں عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا پورا حق ہے آپ اس عدالت کے آرڈر کو چیلنج کریں لیکن جب تک ہائیکورٹ کوئی حکم جاری نہیں کرتی عدالتی کاروائی نہیں روکی جاسکتی۔

(جاری ہے)

عدالت نے استغاثہ کے 8 گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد 2 مزید گواہان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 27 ستمبر تک ملتوی کردی دوران سماعت گواہان کے بیانات ریکارڈ کراتے وقت سابق چیئرمین واٹس ایپ لنک پر موجود تھے جبکہ سابق چیئرمین کے وکیل فیصل ملک اور سلمان اکرم راجہ جبکہ سپیشل پراسیکیوٹرز ظہیر شاہ اور اکرام امین منہاس عدالت میں موجود تھے اس موقع پر سابق چیئرمین کی جانب سے دو درخواستیں دائر کی گئیں جن میں ایک درخواست 19 ستمبر کی عدالتی کاروائی اور سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی فراہی سے متعلق تھی جبکہ دوسری درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ جیل ٹرائل کی عدالت میں منتقلی سے متعلق ہائی کورٹ کے آرڈرز تک عدالتی کاروائی روکی جائے اس موقع پر ملزم کے وکیل کا موقف تھا کہ وہ اپنے موکل سے مشاورت تک عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے جس پر عدالت نے توجہ دلائی کہ گزشتہ سماعت پر آپ کی ان سے بات کرائی لیکن انہوں نے عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا عدالت نے ہدایت کی کہ آپ واٹس ایپ کمیونیکیشن کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ ہم نے واٹس ایپ کمیونیکیشن کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے کیونکہ واٹس ایپ کال کو وڈیو لنک تصور نہیں کیا جاسکتا ہے وکیل صفائی نے استدعا کی کہ ہمیں وقت دیا جائے ہم اس عدالت کے گزشتہ آرڈر کو چیلنج کریں جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ جاکے چیلنج کریں عدالتی کاروائی نہیں روکی جاسکتی اس موقع پر پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ گزشتہ سماعت پر وکلائے صفائی نے عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا آج کی سماعت میں عدالت وکلائے صفائی کے کسی سوال کا جواب دینے کی پابند نہیں وکلائے صفائی ایک دن عدالت چھوڑ کر جاتے ہیں دوسرے دن کہتے ہیں ہمیں وقت دیا جائے پراسیکیوٹر کا موقف تھا کہ چونکہ اس کیس میں استغاثہ کے گواہ ریکارڈ ہونے ہیں لہٰذا ٹرائل نہیں روکا جاسکتا وکلائے صفائی کا رویہ بتارہا ہے یہ ٹرائل کیلئے سنجیدہ نہیں یہ صرف اور صرف عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ٹرائل روکنے سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے چونکہ عدالت گزشتہ سماعت پر وکلائے صفائی کی درخواست پر آرڈر کرچکی ہے اور اب عدالتی آرڈر پر سوالات اٹھانا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے جس پر ملزم کے وکیل کا موقف تھا کہ ہم فیئر ٹرائل کا مطالبہ کررہے ہیں ملزم اگر اپنے وکیل کو نہیں سن سکتا یا وکیل اپنے موکل کو نہیں سن سکتا تو یہ فیئر ٹرائل کیسے ہے جس پر پراسیکیوشن نے اعتراض کیا کہ عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کرکے دوبارہ درخواست دینا یوٹرن ہے لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق کوئی فوٹیج، ٹرانسکرپٹ کسی کو فراہم نہیں کیا جاسکتا وکلائے صفائی کو باہر جاکر میڈیا پر مظلوم بننے کا بہانہ چاہیے حالانکہ اسی عدالت سے چند روز قبل علیمہ خان کی ضمانت منظور کی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت حکومتی ہدایات پر نہیں آئین کے مطابق چلتی ہیں یہ نہیں ہوسکتا عدالت کال کوٹھری میں بند شخص کو واٹس ایپ کال پر پیش کریں جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کا پورا حق ہے آپ اس عدالت کے آرڈر کو چیلنج کریں جب تک ہائیکورٹ کوئی حکم جاری نہیں کرتی عدالتی کاروائی نہیں روکی جاسکتی جس وکیل صفائی نے کہا کہ ٹرائل کو تیز رفتاری سے چلانا ضروری نہیں ہمیں اپنے موکل سے مشاورت کی اجازت دی جائے جس پر عدالت نے یاددہانی کرائی کہ پچھلی بار آپ کے وکلاء کو بانی سے بات کرائی وہ تقریر کرنا شروع ہوگئے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمیں سابق چیئرمین سے ملنے نہیں دیا جارہا وکیل اپنے موکل کی ہدایات پر چلتا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ ہائی کورٹ کی ہدایات اور احکامات نظر انداز نہیں کرسکتی عدالت نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد دونوں درخواستیں خارج کردیں بعد ازاں عدالت نے پیمرا کے ایڈیشنل ڈائریکٹر نادر خان، ایف آئی اے کے ٹیکنیکل اسسٹنٹس انیس الرحمان، محمد عمران، پی آئی ڈی کے ڈپٹی ڈائریکٹرز محمد طارق، حسنین وزیر، سابق اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد محمد عبداللہ، اوائد ارشاد بھٹی اور وزارت داخلہ کے سیکشن افسر بلال احمد پر مشتمل گواہان کے بیانات قلمبند کئے استغاثہ کے گواہان نے اپنی اپنی رپورٹس عدالت میں پیش کردیں اس طرح جی ایچ کیو حملہ کیس میں مجموعی طور پر 41 گواہان کے بیانات ریکارڈ کرلئے گئے ہیں عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ کے مزید گواہان کو طلب کر لیا۔